سیاست دانوں کے نام

محمد انس عبدالرحیم

سیاست کا مفہوم و معنیٰ:

سیاست (Politics) کا لفظ ’’ساس‘‘ سے ماخوذ ہے۔ ساس ایک یونانی لفظ ہے جس کے معنی ہیں ’’شہر اور شہری‘‘ ۔ عربی لغت میں سیاست ’’دیکھ بھال‘‘ اور ’’تدبیر و انتظام‘‘ کو کہا جاتا ہے۔ اہل مغرب کی اصطلاح میں سیاست ’’فنّ حکومت‘‘ کا نام ہے، چاہے اس کا جو بھی طریقہ کار ہو۔ جبکہ اسلام کی نظر میں سیاست ایک آئینی، قانونی اور جامع لفظ ہے جس کے کئی عناصر ہیں۔ جب یہ تمام عناصر موجود ہوں تو وہ اسلامی سیاست ہے، ورنہ وہ صرف سیاست ، اسلامی سیاست نہیں۔

اسلامی سیاست کے ارکان:

اسلامی سیاست کے ارکان یہ ہیں:

۱۔ اسلامی سیاست وہ طرز انتظام ہے جس کا آئین پہلے سے قرآن و سنت کی صورت میں طے شدہ ہے۔ پارلیمنٹ اور مقننہ صرف انہیں امور میں قانون سازی کر سکتی ہے جن کے بارے میں قرآن و سنت خاموش ہوں۔ ان احکم بینھم بما انزل اﷲ…(المائدہ: ۴۹)

۲۔ اسلامی سیاست ایک عادلانہ نظام ہے۔ جس میں قانون سب کے لیے برابر ہے۔ کونوا قوامین بالقسط شھداء ﷲ ولو علی انفسکم …(النسائ: ۱۳۵)

۳۔ اسلامی سیاست کا ایک اہم عنصر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ (آل عمران: ۱۱۰)

۴۔ ایک عنصر رعایا کی بہترین تعلیم و تربیت ہے۔

۵۔ ایک عنصر مستحکم اور بہترین معاشی پالیسیاں ہیں۔ جس میں دولت کا بہاؤ صرف سرمایہ داروں کی بجائے قوم کے تمام افراد کی طرف ہوتا ہے۔ کی لایکون دولۃ بین الاغنیاء منکم…(الحشر: ۷)

۶۔ اسلامی سیاست کا بنیادی محور معاشرے کو نیکی سے قریب اور فساد و بدامنی سے دور کرنا ہے۔

اسلام اور سیاست کا رشتہ:

اﷲ رب العزت نے جب سیدنا آدم علیہ السلام کو دنیا میں بھیجا تو انہیں جہاں اپنا پہلا نبی برحق بنایا وہاں ایک منتظم اور حکمران بھی بنایا۔ چنانچہ انی جاعل فی الارض خلیفۃ کی تعبیر میں منصب نبوت اور منصب سیاست دونوں ہی شامل ہیں۔ انبیائے بنی اسرائیل میں سیدنا یوسف بن یعقوب، سیدنا داؤد، سیدنا سلیمان بن داؤد، سیدنا موسیٰ اور سیدنا یوشع بن نون علیہم السلام کے بارے میں قرآن کریم کی واضح نصوص موجود ہیں کہ وہ جہاں نبی اور رسول تھے وہیں اپنی اپنی قوموں کے لیے حاکم اور منتظم بھی تھے۔ بادشاہ ذوالقرنین کی مدح و ثناء اور اس کے نظام حکومت کی تعریف اور اس کے مقابلے میں فرعون اور نمرود کی مذمت اور ان کے نظام حکومت کی تردید ہمیں سبق دیتی ہے کہ خدا کی خدائی کس طرز سیاست سے خوش ہے اور کس سے نالاں۔

قرآن کریم میں جناب نبی کریم حضرت محمد ﷺ کے چار اعلیٰ مناصب تین سے زائد بار ذکر کیے گئے ہیں:

۱۔ تلاوت آیات

۲۔ تعلیم کتاب (سیرت و سنت)

۳۔ تزکیہ نفوس (تصوف اور سلوک و احسان)

۴۔ تعلیم حکمت

 تعلیم حکمت سے مراد اس جگہ سیاست اور انتظامی امور میں فہم و بصیرت ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جناب نبی کریم ﷺ علم و عمل، حق و صداقت اور نبوت و رسالت کا پیکر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بے مثال، باکمال اور آئیڈیل سیاست دان اور بہترین منتظم اور حکمران تھے۔

خلفائے راشدین کا لفظ نے بار ہا سنا ہے۔ خلفائے راشدین درحقیقت انہیں قدسی صفت شخصیات کو کہا جاتا ہے جو علم و کمال اور زہد و تقویٰ کے ساتھ ساتھ منصب حکومت سے بھی سرفراز کیے جاتے ہیں۔

ان تمام امور سے عیاں ہے کہ اسلام اور سیاست کا رشتہ نہایت قدیم ہے اور دونوں میں باہم ربط و تعلق ہے۔ اس لیے دونوں میں تفریق کرنا اور ان میں تضاد سمجھنا خود ایک صریح خطاء اور غلط فہمی ہے۔

غلط فہمیاں کب پیدا ہوئیں؟

اور یہ غلط فہمی اس وقت پیدا ہوئی جب مذہب اور سیاست کا مفہوم قرآن و سنت سے سمجھنے کی بجائے یورپ اور مغرب سے سمجھا جانے لگا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب مسلمان غلامی اور کمزوری کے دور سے گزر رہے تھے۔ پاپائیت اور تھیوکریسی زوال کا شکار ہو رہے تھے اور دنیا بھر میں سیکولر ازم کے نعروں کو گونج تھی۔ ایسے ہی وقت میں بعض مسلم زعماء نے پاپائیت اور تھیو کریسی کے الزمات سے بچنے کے لیے اسلام اور سیاست ، مذہب اور دنیوی معاملات میں تفریق کر ڈالی۔ تب سے مسلمانوں میں یہ سوچ پروان چڑھنے لگی کہ مذہب ہر فرد کا نجی اور ذاتی معاملہ ہے جبکہ سیاست اور دنیوی معاملات میں انسان کسی مذہب اور دھرم کا تابع نہیں۔ اس نظریے کا حملہ اس قدر طاقت ور تھا کہ عوام تو کجا اچھے خاصے تعلیم یافتہ اور پڑھے لکھے لوگ بھی اس کی رو میں بہہ گئے۔اسی کا اثر ہے کہ آج ایک طرف عوام کی سوچ یہ ہے کہ بھلا مذہب اور سیاست میں کیا رشتہ ؟ مذہب محض عبادات کے چند مجموعے کا نام ہے۔ دنیوی معاملات اور سیاست سے دین کو کیا غرض؟ تو دوسری طرف اہل علم کا یہ حال ہے کہ ’’سیاست‘‘ ایک ’’شجر ممنوعہ‘‘ سمجھ لیا گیا ہے۔ فن سیاست ایک مردہ سنت کا روپ اختیار کر چکی ہے اور سیاست کے اسرار و رموز سے شناسا علماء چند ایک کے سوا ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔

چند گزارشات:

اس سارے منظر نامے میں ہم سیاست دانوں، علمائے کرام اور عوام الناس سب کے سامنے کچھ گزارشات رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ تینوں ہی طبقات سیاست سے متاثر اور (Related)ہیں اس لیے معروضات بھی ان تینوں کے لیے پیش کی جاتی ہیں۔ ہمیں قوی امید ہے کہ ’’کون کہہ رہا ہے؟ یہ نہ دیکھو! یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے؟‘‘ کے تحت ان پر غور کیا جائے گا۔ ورنہ فقیر کا کام صدا لگانا ہے۔ نکتہ رسی اور استفادہ یارانِ نکتہ داں کے حوالے !!!

۱۔ نظریے کی اصلاح کیجیے!

یہ بات ہمیں اپنے ذہنوں سے نکالنا ہوگی کہ اسلام اور سیاست جدا جدا ہیں۔ عوام بھی اس غلط فہمی کی نفی کریں۔ علماء بھی اور سیاست دان بھی۔ سیاست دان اپنی سیاست کو اسلامی اقدار سے قریب لانا شروع کردیں۔ علماء کرام سیاست اور حکومت میں حصہ لیں اور عوام بھی انہیں کو حکومت کے لیے منتخب کریں جو اسلامی اقدار کے زیادہ قریب ہوں۔

۲۔ سیاسی تقسیمات مضر ہیں!

گزشتہ دنوں وائس آف امریکہ نے ایک رپورٹ شائع کی جس کے مطابق پوری دنیا میں سب سے زیادہ سیاسی جماعتیں پاکستان میں ہیں۔ پاکستان میں 227 سیاسی جماعتیں ہیں۔ جن میں سے 153 غیر معروف ہیں۔ 40 پارٹیاں مذہبی ہیں۔ 15 جماعتیں ایسی ہیں جو قومی سطح پر مقبول ہیں جبکہ صوبائی اور علاقائی سطح کی مقبول جماعتوں کی تعداد 13 ہے۔ اس کے علاوہ لسانی اور نسلی بنیادوں پر بنائی گئی جماعتیں 18 ہیں۔ اس کے مقابلے میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں سیاسی جماعتوں کی تعداد دو یا تین سے زیادہ نہیںہوتی۔

یہ رپورٹ نہایت افسوس ناک ہے۔ اس سے جہاں پاکستان جیسے ایک چھوٹے اسلامی ملک میں مسلمانوں کی خطرناک حد تک گروہ بندی نمایاں ہے وہاں عوام کا اپنے راہ نماؤں پر عدم اعتماد اور جذباتیت کی بھی عکاس ہے۔

اس لیے قومی سطح پر یہ بات اجاگر ہونی چاہیے کہ کیا سیاسی طور پر اس حد تک تقسیم در تقسیم کا عمل درست ہے؟ کیا اسلام میں مسلمانوں کو اس طرح تقسیم کرنے کا جواز ہے؟ مذہبی منافرت برائی ہے لیکن کیا سیاسی منافرت اچھائی ہے؟ اس حوالے سے شعور بیدار کرنا جس طرح علمائے کرام اور سیاستدانوں کا کام ہے، عوام الناس کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اپنی صفوں سے اس عنصر کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔

۳۔ ملک گیر سطح کی بات کریں!

سیاسی تقسیم کے اس غیر محتاط عمل کا نقصان اس وقت زیادہ واضح نظر آتا ہے جب علاقائی اور صوبائی سطح کی جماعتیں اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے اجتماعی فائدے کو نظر انداز کرتی نظر آتی ہیں۔ سندھ کی پارٹی صرف سندھ کا مفاد سوچتی ہے اسے دوسرے صوبوں کے مفادات سے غرض نہیں، پنجاب کی نمائندہ جماعت، پنجاب کے حقوق کو زیادہ سپورٹ کرتی ہے۔ اسے بقیہ صوبوں کے حقوق کی فکر نہیں۔ شہری جماعت کو اپنے شہر کے حقوق عزیز ہیں دیہی عوام سے اسے کوئی واسطہ نہیں۔ غرض ہر جماعت نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا رکھی ہے۔ کوئی جماعت اپنے خول سے باہر نکلنے اور قومی اور اجتماعی مفادات کے لیے بات کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اسی نفسانفسی اور آپس کی رسہ کشی سے ہزاروں تنازعات جنم لیتے ہیں۔ غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں اور ملکی مسائل حل ہونے کی بجائے مزید خراب سے خرب تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیشہ اجتماعی اور ملک گیر سطح کے مطالبات اور تجاویز پیش کی جائیں۔ مشہور فقہی قاعدہ ہے: یتحمل الضرر الخاص لدفع ضرر العام یعنی مخصوص مفادات اور عمومی مفادات میں ٹکراؤ ہو تو عمومی مفادات کو ترجیح حاصل ہوگی۔

۴۔ عسکری ونگز کا خاتمہ کیا جائے!

سیاسی جماعتوں نے اپنے مخصوص مفادات کے حصول کے لیے عسکری ونگز بنا رکھے ہیں۔ عوام خوب جانتے ہیں کہ کس سیاسی جماعت کا عسکری ونگ کون سا ہے؟ نتیجہ یہ ہے کہ انسانی خون ارزاں ہوگیا ہے۔ میدان جہاد میں طاغوتی قوتوں کے خلاف برسر پیکار ہونے کی بجائے مسلمان مسلمان کو مولی گاجر کی طرح کاٹنے پر تلا ہوا ہے۔ جو نفرت اور غم و غصہ کفریہ طاقتوں کے خلاف استعمال ہونا چاہیے تھا آج اس کا استعمال خود مسلمانوں کے خلاف ہورہا ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ یہ دشمنوں کی چال ہے یا اپنوں کی بے وقوفی!!!

۵۔ تنقید ہو تذلیل نہیں!

اگر ایک جماعت کو دوسری جماعت کی پالیسیوں اور طریقہ کار سے اختلاف ہو تو اسے اس کے اظہار کا پورا پورا حق ہے لیکن اختلاف رائے اور تنقید کا طریقہ نرم اور مشفقانہ ہونا چاہیے۔ تنقید کے لبادے میں تذلیل اور اظہار نفرت نہیں ہونا چاہیے کہ یہ ایک غیر اخلاقی، غیر اسلامی اور نہایت شرم ناک فعل ہے۔ اسی سے نفرتیں بڑھتی اور فساد اور بدامنی کو شہ ملتی ہے۔ فرعون سے بڑھ کر کوئی کافر، منکر خدا اور ظالم نہیں ہوسکتا لیکن اس پر تنقید اور اس کے خلاف اظہار رائے کا طریقہ قرآن پاک کے الفاظ میں یوںہے: فقولا لہ قولاً لینا(طہ) یعنی فرعون سے نرم اور مشفقانہ لہجے میں بات کرنا۔ سخت اور نفرت انگیز لہجے میں بات نہ کرنا۔

۶۔ اچھائیوں کا اعتراف کیجیے!

نہایت کم ظرفی اور تنگ نظری کی بات ہے کہ ہم اپنے کاموں کو تو قدر واحترام کی نظروں سے دیکھتے ہیں لیکن دوسرے کے کاموں کو بالکل نظر انداز کردیتے ہیں۔ حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ دوسری جماعت کوئی اچھا کام کر رہی ہے تو اس کا اعتراف کیا جائے! اس کے نیک کاموں میں اس کا ساتھ دیا جائے اور اس کے کام کی ایسی ہی قدر کی جائے جیسے اپنے کام کی قدر کی جاتی ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وتعاونوا علی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان (المائدہ:۲)

نیکی اور پرہیز گاری کے امور میں ایک دوسرے کا ساتھ دو! البتہ گناہ اور ظلم کے معاملات میں کسی کا ساتھ نہ دو!

۷۔ حکومتوں کو کام کرنے دیا جائے!

حکومتوں کا عدم استحکام ہمیشہ کمزوریوں کو جنم دیتا ہے۔ جو لوگ احادیث کا گہرا اور وسیع مطالعہ رکھتے ہیں انہیں بخوبی علم ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے کبھی بھی حکومتوں کے خلاف بغاوت کو برداشت نہیں کیا۔ حتیٰ کہ یہاں تک فرمایا کہ اگر کوئی نا اہل اور حبشی غلام بھی تخت حکومت پر مسلط ہوجائے تو اس کی بھی اطاعت کرو! جب تک کفر بوّاح ظاہر نہ ہو جائے اور یہ یقین نہ ہوجائے کہ بغاوت کے نتیجے میں ہونے والا خون خرابہ موجودہ فتنہ فساد سے کم ہوگا اور بغاوت کرنے والوں کے پاس دیانتدار اور حکومت چلانے کے اہل لوگ بھی موجود ہوں تب اجازت ہے، ورنہ نہیں۔

مسلمانوں کی چودہ سو سالہ تاریخ گواہ ہے کہ بغاوتوں کے نتیجے میں اکثر و بیشتر خون خرابہ ہی ہوا۔ اس لیے علانیہ بغاوتوں کے مقابلے میں خفیہ منصوبوں اور عوام کی خفیہ ذہن سازی پر زیادہ توجہ دینی چاہیے! اس آخری گزارش کے مخاطب جس طرح سیاسی جماعتیں ہیں علمائے کرام، عوام اور قومی ادارے بھی اس کے مخاطب ہیں۔ انہیں بھی اس پہلو پر توجہ دینی چاہیے!

سیاسی اختلافات کے خاتمے کی صورت:

موجودہ عالمی حالات …کہ جس میں مسلمانوں پر مظالم و مصائب کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ مسلمانوں کو مرتد کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں ۔ مسلمانوں پر نظریاتی حملے کیے جارہے ہیں۔ مسلمانوں کو تقسیم در تقسیم، فرقہ ور فرقہ کے عمل سے گزارہ جارہا ہے، اسلام اور دہشت گردی کو مترادف قرار دیا جارہا ہے… مذہبی زعماء کے ساتھ ساتھ سیاسی لیڈر شپ کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے تمام تر اختلافات کو بھلا کر … ایک بلند مقصد کے لیے… مسلمانوں کے ایک عالمی مفاد کی خاطر دوسروں کے لیے اپنے ذاتی اور شخصی حقوق سے دستبردار ہوجائیں۔ اس موقع پر حسن خاتمہ کے طور پر مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی شفیع صاحبؒ کی تحریر سے ایک اقتباس پیش کیا جارہا ہے:

’’جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ مذہبی معاملات میں جس شخص نے کوئی خاص رخ اختیار کر رکھا ہے، وہ اسی کو اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیم و تلقین سمجھ کر اختیار کیے ہوئے ہیں، خواہ وہ حقیقت کے اعتبار سے بالکل غلط ہی ہو، مگر اس کا نظریہ کم از کم یہی ہے کہ وہ اﷲ کا دین ہے۔

ان حالات میں اس کو ہمدردی اور نرمی سے اپنی جگہ افہام و تفہیم کی کوشش تو بجائے خود جاری رہنا چاہیے، لیکن جب تک اس کا نظریہ نہ بدلے اس کو یہ دعوت نہیں دی جا سکتی کہ تم ایثار کرکے اپنا نظریہ چھوڑ دو اور صلح کرلو، ان سے تو صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ اختلاف رائے کو اپنی حدود کے اندر رکھیں اور افہام و تفہیم، قرآنی اصولِ حکمت، موعظت، مجادلۃ بالتی ھی أحسن کو نظر انداز نہ کریں، مگر جن معاملات کا تعلق صرف شخصی(سیاسی) اور ذاتی حقوق اور خواہشات سے ہے، وہاں یہ معاملہ سہل ہے کہ جھگڑے سے بچنے کیلئے دوسرے کے واسطے اپنی جگہ چھوڑ دے، اپنے حق سے دست بردار ہوجائے اور جو شخص ایسا کرے دنیا میں بھی اس کی عزت کو چار چاند لگ جاتے ہیں اور جس مقصد کو چھوڑا ہے وہ دوسرے راستے سے حاصل ہوجاتا ہے اور آخرت میں تو اس کے لیے ایک عظیم الشان بشارت ہے، جس کا بدل پوری دنیا اور دنیا کی ساری حکومتیں اور ثروتیں بھی نہیں ہوسکتی۔

رسول کریم ﷺ نے فرمایا:

’’انا زعیم ببیت فی ربض الجنۃ لمن ترک المراء وھو محق‘‘

’’میں ضامن ہوں اس شخص کو وسط جنت میں مکان دلانے کا جس نے حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑ دیا‘‘۔

اﷲ ہم سب کا حامی و ناصر ہو!

اپنا تبصرہ بھیجیں