سودی بینک سے قسطوں پر گھر خریدنا

سوال:مفتی صاحب  جو ہمارے مسلمان بھائی آسٹریلیا اور یورپ کے ایسے شہروں  میں رہتے ہیں  جہاں کوئی  اسلامک بینک بھی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی مسلم کمیونٹی تو وہ اپنا ذاتی گھر کیسے خریدیں  کیونکہ کئی سالوں کی سیونگ بھی گھر خریدنے کے قابل نہیں بناتی اگرچہ اچھی ملازمت ہو تو میرے دوست کا سوال ہے کہ جتنی رقم کرائے کی مد میں دی جاتی ہے جو کہ معقول بلکہ آدھی تنخواہ تک بھی ہوتی ہے تو اتنی ہی رقم بطور قسط کے دینے سے  اپنا گھر سودی بینک سے مل سکتا ہے تو اس صورت میں گنجائش کی کوئی صورت یا متبادل کی رہنمائی فرمائیں ؟

الجواب حامدا ومصلیا

واضح رہے کہ قسطوں پر بینک سے گھر خریدنے کی صورت میں اصل رقم سے زائد رقم ادا کرنی پڑتی ہے جو کہ سود ہے   اور  سود کا لین دین شرعا اس قدر  سنگین  گناہ ہے کہ اسے اللہ اور اس کے رسول ﷺکے ساتھ اعلان جنگ قرار دیاگیا ہے۔قرآنِ کریم میں ہے: [البقرة : ۲۷۸ إلى ۲۸٠ ]

﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا الله َ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِيْنَ فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِه وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ أَمْوَالِكُمْ لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ وَإِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَة إِلٰى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْر لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾

ترجمہ: اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایاہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو، پھر اگرتم نہ کرو گے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے. اور اگر تم توبہ کرلوگے تو تم کو تمہارے اصل اموال مل جائیں گے، نہ تم کسی پر ظلم کرنے پاؤ گے اور نہ تم پر ظلم کرنے پائے گا، اور اگر تنگ دست ہو تو مہلت دینے کا حکم ہے آسودگی تک اور یہ کہ معاف ہی کردو  زیادہ بہتر ہے تمہارے لیے اگر تم کو خبر ہو۔ (بیان القرآن )

سودی قرض لینے کی گنجائش اسی وقت ہوسکتی ہے جب اضطراری حالات پیدا ہوجائیں کہ سودی قرض لیے بغیر  جان جانے کاخطرہ ہو سوال میں جو پریشانی  ذکر کی گئی ہے  وہ ضرورت واضطرار کے درجے کی نہیں ہے  کہ ان کی وجہ سے سود ی قرض کی اجازت ہوجائے،اس لیے صورت مسئولہ میں بینک سے سودی قرض لے کر ذاتی مکان خریدنے کی اجازت نہیں  ہوگی، کوشش کریں  کہ بینک کے علاوہ کسی سے غیر سودی قرضہ مل جائے، اور جب تک غیر سودی قرضہ نہ مل سکے اس وقت تک کرایہ کے مکان یا فلیٹ سے کام چلاتے رہیں اور اپنی تنخواہ سے ماہانہ کچھ پیسے جمع کرتے رہیں  جب انتظام ہوجائے تو  مکان خرید لیں  گھر خرید نے کے لیے ایک درج ذیل متبادل طریقہ اختیار کیا جاسکتاہے کہ بینک کی انتظامیہ سے بات کی جائے کہ  بینک مطلوبہ گھر  اصل مالک سے پہلے خود خریدلے اس طور پر کہ وہ گھر بینک کے قبضہ میں آجائے،  پھر وہ گھر متعین نفع کے اضافہ کے ساتھ قسطوں پر آپ کو فروخت کردے (اور  قسط کی تاخیر کی صورت میں مقررہ   رقم پر اضافہ نہ ہو)تو یہ طریقہ اختیار کرنا جائز ہوگا   ۔

صحيح مسلم (3/ 1219)

“عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ»، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ»”

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 168)

“الربا شرعا فضل خال عن عوض بمعیار شرعي مشروط لأحد المتعاقدین في المعاوضة”

غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر (1/ 277)

“الضَّرُورَةُ بُلُوغُهُ حَدًّا إنْ لَمْ يَتَنَاوَلْ الْمَمْنُوعَ هَلَكَ إذَا قَارَبَهُ، وَهَذَا يُبِيحُ تَنَاوُلَ الْحَرَامِ.وَالْحَاجَةُ كَالْجَائِعِ الَّذِي لَوْ لَمْ يَجِدْ مَا يَأْكُلُهُ لَمْ يَهْلِكْ غَيْرَ أَنَّهُ يَكُونُ فِي جَهْدٍ وَمَشَقَّةٍ وَهَذَا لَا يُبِيحُ الْحَرَامَ، وَيُبِيحُ الْفِطْرَ فِي الصَّوْمِ”

أصول الإفتا وآدابہ، ص ۲۶۸، ۲۶۹،

“وإن هذا التعریف وإن کان مختصاً بضرورة أکل المحرم ولکنه یشمل تعاطي کل محظور بشرط أن یکون هناک خوف علی النفس أو العضو کارتکاب الکذب أو المحظورات الأخری في حالة الإکراه الملجیٴ، ویجب لتحقق الضرورة أمور: الأول أن یکون هناک خوف علی النفس أو علی العضو، الثاني: أن تکون الضرورة قائمة لا منتظرة بمعنی أن یقع خوف الهلاک أو التلف بغلبة الظن حسب التجارب لا مجرد وهم بذلک، الثالث: أن لا یکون لدفع الضرر وسیلة أخری من المباحات ویغلب علی ظن المبتلی به أن دفع الضرر متوقع بارتکاب بعض المحرمات”

شرح القواعد الفقهية (ص: 159)

“وَأما المنهيات الَّتِي تُبَاح عِنْد الضَّرُورَة، كإتلاف مَال الْغَيْر وَشرب الْمُسكر، فَإِنَّهَا تحل بل تجب بالملجئ لَا بِغَيْر الملجئ”

غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر (1/ 294)

“قَوْلُهُ: يَجُوزُ لِلْمُحْتَاجِ الِاسْتِقْرَاضُ بِالرِّبْحِ، وَذَلِكَ نَحْوَ أَنْ يَقْتَرِضَ عَشَرَةَ دَنَانِيرَ مَثَلًا، وَيَجْعَلَ لِرَبِّهَا شَيْئًا مَعْلُومًا فِي كُلِّ يَوْمٍ رِبْحًا”

کفایت المفتی۸/۱۰۶

“سود پر روپیہ قرض لینا جائز نہیں الا یہ کہ اضطراری حالت ہوجائے”

فتاوی محمودیہ۱۶/۳۰۵

“سود دینا حرام ہے، ایسے شخص پر حدیث شریف میں لعنت آئی ہے، حرام کا ارتکاب اضطرار کی حالت میں معاف ہے، پس اگر جان کا قوی خطرہ ہے یا عزت کا قوی خطرہ ہے، نیز اور کوئی صورت اس سے بچنے کی نہیں، مثلا: جائے داد فروخت ہوسکتی ہے، نہ روپیہ بغیر سود کے مل سکتا ہے تو ایسی حالت میں زید شرعاً معذور ہے،اور اگر ایسی حالت نہیں، بلکہ کسی اور دنیوی کاروبار کے لیے ضرورت ہے یا روپیہ بغیر سود کے مل سکتا ہے یا جائیداد فروخت ہوسکتی ہے تو پھر سود پر قرضہ لینا جائز نہیں، کبیرہ گناہ ہے”

واللہ اعلم بالصواب

حنظلہ عمیر بن عمیر رشید

نور محمد ریسرچ سینٹر

دھوراجی کراچی

۲/۱۱/۱۴۴۱ھ

2020/6/23ء

اپنا تبصرہ بھیجیں