سودی رقم کا صحیح مصرف

سوال:مفتی صاحب ایک مسئلہ میں  راہنمائی فرمائیں کہ  میں نے ایک مرکز قومی بچت میں پیسے رکھوائے ہوئے ہیں  جس پر ماہانہ فکس نفع آتا ہے۔ چونکہ میرا اپنا کاروبار بھی ہے  لہذا عام طور پر ان پیسوں کو  گھر کے خرچہ کے لیے استعمال کی نوبت نہیں آتی ۔اب وہ کوئی چار لاکھ تک جمع ہوگئے ہیں ۔بتائیں اس کا کیا کروں ؟ محلے میں ایک غریب بچی کی شادی  ہے اس پر لگا دوں ؟مسجد میں تعمیراتی کام  چل رہا ہے وہاں لگادوں ؟یا اپنے استعمال میں لے آؤں؟                                                                                   

                                                                                                            سائل :محمد جاوید

                                                     ﷽

الجواب حامدا ومصلیا

 واضح رہے کہ کسی کو پیسے دے کر اس پر اضافی رقم لینا شرعاًسود ہے  ،لہذا  سائل پر سودی معاملہ کرنے کی وجہ سے توبہ و استغفار کرنا لازم ہے  اور صرف اصل رقم لینا جائز ہے بقیہ  منافع کی رقم کو صدقہ کرنا  یا کسی رفاہی  کام میں لگانا ضروری ہے ،  لیکن  مسجد کے احترام کی وجہ سے یہ رقم مسجد کی تعمیر وغیرہ میں استعمال نہ کی جائے  البتہ  اگر بچی   مستحق زکوۃ ہے تو  اس کو بغیر ثواب کی نیت کے مالک بنا کر یہ رقم دینا جائز ہے ۔

البقرۃ:275

“وَ اَحَلَّ الله الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبَا”

آل عمران:130

“یَآ اَیّهَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَاْکُلُوا الرِّبَا اَضْعَافًا مُضَاعَفَۃً وَّ اتَّقُوا اللہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ”

صحيح مسلم (3/ 1219)

“عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ»، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ»”

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 166)

“وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام”

الفتاوى الهندية (3/ 212)

“فإنه يتصدق بذلك الفضل في قول أبي حنيفة وأبي يوسف – رحمهما الله تعالى – وإنما طاب للمساكين على قياس اللقطة قال وهذا الربح

لا يطيب لهذا المشتري، وإن كان فقيرا لأنه يكتسبه بمعصية ويطيب للمساكين وهو أطيب لهم من اللقطة”

آپ کے مسائل اور ان کا حل۶/۲۴۶

“متعین شرح پر روپیہ دینا سود ہے، یہ کسی طرح بھی حلال نہیں”

کفایت المفتی۷/۱۰۵

“اس روپے کو امور خیر میں جو رفاہ عام سے تعلق رکھتے ہوں یا فقراء و مساکین کی رفع حاجات کے لئے مفید ہوں مثلاً یتامی و مساکین اور طلبائے مدارس اسلامیہ کے وظائف اور امداد کتب وغیرہ پر خرچ کرنا یا مسافر خانہ کنواں سڑک وغیرہ تعمیر کرنا سڑکوں پر روشنی کرنا یہ سب صورتیں جائز ہیں،البتہ مسجد پر خرچ نہ کی جائے کہ یہ تقدس مسجد کے منافی  ہے”

احسن الفتاوی۷/۱۹

بينک کے سودی کھاتے میں رقم جمع کرانا جائز نہیں اگر کسی نے جہالت یا غفلت کی وجہ سے جمع کرادی بعد میں متنبہ ہو کر اس عمل پر نادم ہوا  تو اس پر واجب ہے کہ اس سے توبہ و استغفار کرکے فورا اپنی پوری رقم مع سود بنک سے نکال لے اور سود کی رقم بلا نیت ثواب مساکین پر صدقہ کردے”

واللہ اعلم بالصواب

حررہ العبد حنظلہ عمیر غفر لہ

نور محمد ریسرچ سینٹر

دھوراجی کراچی

۱۶/۶/۱۴۴۱ھ

ء2020/2/11

اپنا تبصرہ بھیجیں