طلاق کو شرط کے ساتھ معلق رکھنا

سوال:محترم جناب مفتیان کرام! السلام علیکم و رحمة الله وبركا ته!کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کسی کا خاوند اپنی بیوی کو کہے کہ اگر تم نے درزی سے کپڑے سلوائے تو تمھیں طلاق ہے۔ اب اگر وہ اپنی کسی عزیز سے کہے میرے کپڑے لیڈیز بوتیک سے سلوا دو تو عزیزہ کچھ کپڑے بوتیک سے سلواتی ہےاور دو سوٹ درزی سے سلوا کر اس سے سلائی لے لیتی ہے اور اس کو کہتی ہے کہ سارے سوٹ بوتیک سے سلوائے ہے تو کیا حکم ہوگا۔ کیا عزیزہ ایسا کر سکتی ہے اس کو بتائے بغیر درزی سے سلوا کر سلائی لے لے۔

جزاک اللّٰہ

الجواب باسم ملهم الصواب

وعلیکم السلام و رحمة الله!

مسئلہ ھذا میں شوہر نے طلاق کو بیوی کے درزی سے کپڑے سلوانے کے ساتھ معلق کیا تھا اور بیوی نے نہیں سلوائے تو شرط نہیں پائی گئی۔ کسی عزیز کے سلوانے سے طلاق نہیں ہو گی۔ جب تک شرط نہ پائی جائے طلاق واقع نہیں ہو گی۔

“وإذا أضافه (أي الطلاق) إلى شرط وقع عقيب الشرط، مثل أن يقول لامرأته «إن دخلت الدار فأنت طالق» فإن الطلاق يقع إذا دخلت الدار (حاشية ابن عابدين ,374/3)

“ان دخلت الدار فانت طالق، ربط حصول طلاقها بحصول دخولها الدار. (رد المحتار علي الدر المختار، 578/4)

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ: 1 رمضان 1442ھ

عیسوی تاریخ: 14 اپریل 2021

اپنا تبصرہ بھیجیں