تعلیم قرآن مجید پر ہدیہ قبول کرنا

سوال:ہمارے محلے دار ہیں ،ناظرہ تعلیم دیتے ہیں،فیس نہیں لیتے، بچوں کے والدین اپنی خوشی سے ان کو کوئی ہدیہ دے دیتے ہیں، ہمارا ان کے گھر آنا جانا ہے،وہ بھی ہمارے گھر کھانا وغیرہ بھیج دیتے ہیں،پوچھنا یہ ہے کہ ہمارا ان کے گھر سے ہدیہ لینا کیسا ہے؟

الجواب باسم ملھم الصواب

واضح رہے کہ جس طرح تعلیم قرآن مجید کی اجرت لینا جائز ہے ،اسی طرح ہدیہ قبول کرنا بھی جائز ہے ،بشرطیکہ ہدیہ دینے والا طالب علم بالغ ہو یا نابالغ ہونے کی صورت میں اس کے والدین اپنی خوشی سے استاذ کے لیے ہدیہ بھیجیں،لہذا صورت مسئولہ میں اگر استاد کو ہدیہ بالغ طالب دے یا نابالغ کے والدین تو پھر ان کا مال حلال ہے، ان کے گھر سے کھانا اور ہدیہ وغیرہ بھی قبول کرنا جائز ہے۔

———————————————

حوالہ جات:

1…أخرج الخطيب فى رواة مالك والبيهقي فى شعب الإيمان عن ابن عمر قال:تعلم عمر البقرة فى اثنتي عشرة سنة فلما ختمها نحر جزوراً.

(الدر المنثور:54/1)

ترجمہ:حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سورت بقرہ بارہ سال میں یاد کی جب ختم کی تو اونٹ ذبح فرمایا.

2…عن أبی حمید الساعدي أن النبي صلى اللّٰه عليه وسلم قال :”لا يحل لامرىٔ أن يأخذ عصا أخيه بغير طيب نفس منه”.

(صحیح ابن حبان:316/3)

ترجمه:حضرت ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:کسی آدمی کے لیے اپنے بھائی کی لاٹھی بھی اس کی دلی رضامندی کے بغیر اٹھانا حلال نہیں۔

3…ويفتي اليوم بصحتها أي الإجارة على تعليم القرآن والفقه والإمامة والأذان.

(الدر المختار مع رد المحتار:46/5)

4…(والفتوى اليوم على جواز الاستىٔجار لتعليم القرآن)،وهذا مذهب المتاخرين من مشايخ بلخ استحسنوا ذالك وقالوا بنى اصحابنا المتقدمون الجواب على ما شاهدوا من قلة الحفاظ ورغبة الناس فيهم ؛ولأن الحفاظ والمعلمين كان لهم عطايا فى بيت المال وافتقاداتٍ من المتعلمين فى مجازات التعليم من غير شرط،وهذا الزمان قل ذالك واشتغل الحفاظ بمعاىٔشهم فلو لم يفتح لهم باب التعليم بالاجر لذهب القرآن فافتوا بالجواز.

(البحرالراىٔق شرح كنز الدقاىٔق ومنحة الخالق وتكملة الطوري :22/8)

5…لا یجوز ان یھب شیٔا من مال طفله ولو بعوض لأنها تبرع ابتداء.

(الدر المختار:583/8)

واللہ اعلم بالصواب

4 شعبان 1443ھ

8 مارچ 2022ء

اپنا تبصرہ بھیجیں