طالب علم کیسا ہو؟

علم کے معنی: علم کے معنی ہیں جاننا۔پہچاننا۔ معرفت حاصل کرنا، جستجو کرنا۔ علم ہی وہ نور ہے جس کی بدولت انسان اشرف المخلوقات کہلایا۔علم کے بغیر انسان حیوانوں  سے بھی بدتر ہے۔

علم کی ترغیب :   طلب علم پر  جتنا زور دین نے دیا ہے اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی ۔اسلام  نے جاہلیت کی  نفی کرتے ہوئے  ہر مرد وعورت  پر علم  فرض قرار دیاہے اور اس کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا ہے :

” علم حاصل کرو چاہے اس کے لیے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے ” (الحدیث بسند ضعیف )

ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جس شخص نے کوئی راستہ طے کرنا شروع کیا جس سے اس کا مقصد حصول علم تھا۔اللہ تعالیٰ اس کی بدولت اس کے لیے جنت کا  راستہ آسان کردیتا ہے۔ ( مسلم شریف ،صحیح حدیث )

قرآن کریم میں بھی جابجا علم کی فضیلت بیان کی گئی ا ور علم حاصل کرنے کی ترغیب  دی گئی سورہ بقرۃ میں اللہ نے حضرت آدم  علیہ السلام  کو ان چیزوں کے نام سکھائے جن کے نام فرشتے بھی نہ جانتے تھے ۔

پہلی وحی کا آغاز بھی “اقراء ” سے ہوا ۔ (مطلب سمجھ سمجھ کر پڑھ )

قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ علم میں اضافے کی دعا مانگنے کی ترغیب دی۔ وقل رب زدنی علما

طلب علم کے آداب: جس طرح نماز، روزہ،کھانے،پینے،سونے،جاگنے کے آداب  ہیں اسی طرح طلب علم  کے بھی بہت سے آداب ہیں ہر طالب علم   کو چاہیے   کہ وہ یہ آداب اپنی زندگی میں لانے کی بھرپور کوشش کرے:

1. دائرہ اسلام کے مطابق علم کی فرضیت : ” علم حاصل کرنا ہرمسلمان  مردوعورت پر فرض ہے” (الحدیث مشکوۃ )

مطلب یہ ہے کہ ہر مسلمان  کم از کم اتنا علم ضرور حاصل کرے کہ اسے حق وباطل، حلال وحرام،جائز ناجائز۔اچھے  برے ،پاکی ناپاکی کی تمیز اور واضح فرق سمجھ  آجائے ۔

2. علم حاصل کرنے میں کسی کی دل آزاری نہ کرے:

آداب علم میں یہ بھی شامل ہے کہ انسان جب علم حاصل کرے تو کسی کے حقوق پامال نہ کرے طالب علم  کسی کی دل آزاری نہ کرے۔

3. آلات علم کا صحیح استعمال : آلات علم سے مراد آنکھ،کان،ناک،ہاتھ،پیر،دماغ وغیرہ کا مثبت پہلو میں استعمال  کرے۔اپنی سوچ اورا فعال وغیرہ کو منفی پہلو پر گامزن کر کے نافرمانی کی راہ اختیار نہ کرے۔اور ایسا علم حاصل کرے جو اسے تباہ وبرباد کردے جیسے جادو ،منتر وغیرہ۔ رسول کریم ﷺ نے بھی ایسے علم سے پناہ مانگی ہے۔

اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤ گے

خاک ہوجاؤ گے افسانوں میں ڈھل جاؤ گے

اپنی مٹی پر تو چلنے کا سلیقہ سیکھو

سنگ مرمر پر چلوگے تو پھسل جاؤگے

4. علمی خیانت نہ کرے :

طلب علم کے آداب میں یہ ادب بھی شامل ہے کہ طالب علم علمی خیانت نہ کرے بلکہ جو کچھ بھی پڑھے سمجھ سمجھ کر اخلاص،سچائی  اورا یمانداری سے پڑھے۔علمی خیانت سے مراد یہ ہے کہ بغیر سمجھے بس دنیا کو دکھانے کے واسطے پڑھے۔

“سبق پھر پڑھ صداقت کا،عدالت کا،شجاعت کا

لیاجائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا”

5. سیکھنے میں شرم محسوس نہ کرے:

علم حاصل کرنے کے لے کوئی حد مقرر نہیں کی گئی۔انسان چاہے بوڑھا ہو یا جوان ہو یا بچہ وہ کسی بھی عمر میں علم حاصل کرسکتا ہے ۔مشہور مقولہ ہے :اطلبوا العلم من المھد الی اللحد

” علم حاصل کرو ماں کی گود سے قبر کی آغوش تک “

6. خود عمل کرے اور دوسروں کو ترغیب دے :

علم کے ادب میں یہ بھی شامل ہے کہ انسان نے جو کچھ بھی سیکھا اس پر اپنی پوری زندگی عمل کرے اور دوسروں  کو بھی کچھ نہ کچھ دین کی تعلیم  دیتا رہے کیونکہ علم کی زکوۃ  تو لوگوں کو تعلیم دینا ہے اور اگر علم کو عمل میں لائیں گے تو ہی باقی رہے گا۔

“عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے”

7. خوف خدا دل میں رکھے : علم کی ابتداء خوف خدا سے ہوتی ہے۔انسان چاہے جتنا بھی علم حاصل کر لے  اسے اپنے علم پر کبھی بھی  تکبر نہیں کرنا چاہیے۔

“تیرا غرور عبادت  تجھے لے نہ ڈوبے

سنا ہے ابلیس  بھی پڑھتا تھا نماز بہت”

8. استاد کا ادب : استاد کا ادب کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے۔جو طالب علم اپنے استاد کا ادب  وعزت نہیں کرتا وہ علم کے فیض سے کبھی بہرہ ور نہیں ہوسکتا۔ اسلام نے استاد کو باپ کا درجہ دیا ہے۔ایک بزرگ نے ارشاد فرمایا :انسان کے تین باپ ہیں:

1. اس کا والد

2. اس کا  سسر

3. اس کا استاد

اسلام نے استاد کی بڑی فضیلت بیان کی  ہے۔انسان کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ استاد کی عزت نہ کرنا ہے۔

چند نصائح :

اس کے علاوہ  ایک اچھے طالب علم  کے لیے ضروری ہے کہ وہ قواعد وضوابط کا بھرپور پابند ہو،اخلاق وسیرت میں وہ عمدہ اور سب میں نمایاں  ہو۔وقت کے ضیاع سے بچتا ہو۔اچھی صحبت اختیار کرتا ہو  اور بری صحبت سے مکمل پرہیز کرتا ہو۔ یہ بھی یاد رہے کہ  حصول   علم کے  کے لیے  کسی عمر اور کسی خاص  زمانے کی کوئی قیدنہیں۔اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے بڑی  عمر میں  علم دین حاصل  کیا۔اب تعلیمی اداروں میں تعطیلات آرہی ہیں۔انہیں ضائع نہیں کرنا چاہیے ۔کسی نہ کسی علمی مصروفیات  سے ان ایام کو آباد  رکھنا چاہیے! بس  استاذ  ایسے شخص  کو مت بنایئے گا  جس نے کسی استاذ سے نہ پڑھا ہو۔

“حیرت ہے تعلیم وترقی میں ہے پیچھے

جس قوم کا آغاز ہی اقراء سے ہوا تھا”

 

 

 

اپنا تبصرہ بھیجیں