ٹنکی میں مری ہوئی بلی کا پایا جانا

سوال:ٹنکی میں مری ہوئی بلی دیکھی گئی ہے ، اسے کیسے پاک کریں اور کب سے اسے ناپاک سمجھیں؟

ام رومان

اسلام آباد

الجواب بعون الملک الوھاب

مذکورہ سوال کے دو اجزا ہیں: (1)ٹنکی کے پاک کرنے کا طریقہ۔ (2) کب سے اس ٹنکی کو ناپاک سمجھیں گے؟

(1) جب بلی ٹنکی میں مری ہوئی پائی گئی تو اب اس بلی کو نکال کرٹنکی کا سارا پانی نکالا جائے گا۔ اگر یہ زمین دوز ٹنکی ہے تو اس کے پاک کرنے کے دو طریقے ہیں:(الف)ایک یہ کہ جب باہر سے پانی آرہا ہو اس وقت اس کا گولہ اتار لیا جائے یا اس کے ساتھ کوئی وزن وغیرہ باندھ دیا جائے تاکہ گولہ پانی کے ساتھ بلند ہو کر باہر سے آنے والے پانی کا راستہ نہ روکے، اس طرح سے بیرونی پانی آتا رہے گا اور ٹنکی بھر کر پانی اوپر سے بہنے لگے گا۔ (ب) دوسرا :جس وقت اس میں باہر سے پانی آرہا ہو اس وقت موٹر کے ذریعہ اس ٹنکی کا پانی کھینچنا شروع کر دیا جائے۔ تو اس طرح دونوں صورتوں میں یہ جاری پانی کے حکم میں ہو جائے گا اور ٹنکی پاک ہو جائے گی۔

اوپر کی ٹنکی کو یوں پاک کیا جائے کہ موٹر کے ذریعہ اس میں پانی چڑھانا شروع کر دیں اور اس ٹنکی سے غسل خانوں وغیرہ کی طرف آنے والی لائن کھول دیں، اس طرح سے پانی جاری پانی کے حکم میں ہو کر ٹنکی پاک ہو جائے گی۔

“ثم الحیوان إذا مات في المائع القلیل، فلا یخلوا إما إن کان لہ دم سائل أو لم یکن – وإن کان لہ دم سائل فإن کان بریا ینجس بالموت- سواء کان ماءً أو غیرہ – الخ”

(بدائع الصنائع: ۱/ ۲۳۱، زکریا، احکام الآبار) 

“ففي الحوض الصغیر إذا کان یدخل فی الماء من جانب ویخرج من جانب، یجب أن یکون ہکذا؛ لأن ہذا ماء جاری والماء الجاری یجوز التوضو فیہ وعلیہ الفتوی”

(الدر المختار: ۱/۳۳۸، زکریا)

2)دوسرا جزو : بلی مری ہوئی ہے لیکن پھولی پھٹی نہیں،ایسی صورت میں ایک دن ،رات سے اس کو ناپاک سمجھیں گے اور جن لوگوں نے اس ایک دن رات میں اس پانی سے وضو اور غسل کر کے نمازیں پڑھی ہیں،ان نمازوں کا اعادہ واجب ہوگا.اور جن چیزوں کو یہ پانی پہنچا ہے، یعنی کپڑے اور برتن وغیرہ جو اس پانی سے دھوئے گئے ہیں ان کو بھی دھوکر پاک کیا جائے گا۔

اور اگر بلی پھول گئ ہے یا پھٹ گئی ہے تو چونکہ پھولنا اور پھٹنا اس بات کی دلیل ہے کہ کم از کم تین دن ہو گئے ہوں گے اس بلی کو اس ٹنکی میں گرے ہوئے.اس حالت میں تین دن اور تین راتوں کی نمازوں کی قضا ان لوگوں پر واجب ہوگی جنہوں نے اس پانی سے وضو کر کے پڑھی تھیں.اور اسی طرح ان تین دنوں میں جن چیزوں کو یہ پانی پہنچا ہے ان کو بھی دھوکر پاک کیا جائے گا۔

یہ حکم امام صاحب کے قول پر ہے؛جبکہ صاحبین کا قول اس جیسے مسائل میں یہ ہے کہ جس وقت سے بلی دیکھی گئی ،اس وقت سے ٹنکی / کنویں کو ناپاک سمجھا جائے گا اور پچھلی نمازوں کا اعادہ واجب نہیں ہوگا۔

پہلا قول احتیاط پر مبنی ہے،جبکہ دوسرے قول میں آسانی دی گئی ہے،لہٰذا تنگی سے بچنے کے لیے دوسرے قول پر بھی عمل کیا جا سکتا ہے۔ البتہ اگر یقینی طور پر معلوم ہو جائے کہ کس وقت گری تھی،مثلاً:کوئی آکر بتا دے کہ اس نے بلی کو گرتے ہوئے دیکھا تھا۔تو اب چونکہ یقینی وقت معلوم ہو گیا س لیے جب سے دیکھا گیا ہے اتنے دنوں کی نمازیں لوٹانا واجب ہوں گی۔ 

“”وان وجد فی البئر أو غیرھا ولا یدر متی وقعت و لم ینفخ، أعادوا صلٰوۃ یوم و لیلۃ إذا کانوا توضؤا منھا و غسلوا کل شئ اصابہ ماؤھا. و ان کانت قد انتفخت أعادوا صلٰوۃ ثلاثۃ ایام و لیالیها و ھٰذا عند ابی حنیفۃؒ و قالا لیس علیھم اعادۃ شیئ حتی یتحققوا انھا متی وقعت،لانّ الیقین لا یزول بالشک۔”

الھدایہ مع الدرایۃ :کتاب الطھارات، فصل البئر، ص ٤٢))

“ویحکم بنجاستہا مغلظۃ من وقت الوقوع إن علم، وإلا منذ ثلاثۃ أیام بلیالیہا، إن انتفخ أو تفسخ استحسانا”

(الدر المختار مع الشامي، فصل في البئر، زکریا ۱/ ۳۷۷، کراچی ۱/ ۲۱۸)

فقط واللہ الموفق

بنت ممتاز عفی عنھا

صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر ،کراچی

5-6-1439ھ/21-2-2018ء

اپنا تبصرہ بھیجیں