اس سورت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا بیان ہےآپ کا تبتل(خالص اللہ کی طرف متوجہ ہوجانے) آپ کی عبادت،اطاعت،آپ کا قیام وتلاوت آپ کا جہاد وہ مجاہدہ خود اس سورت کا نام اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اس سورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کا بیان ہے مزمل کا معنی ہے کپڑے میں لپٹنے والے جب ان آیا ت کا نزول ہوا تو آپ چادراوڑھ کر لیٹے ہوئے تھے اللہ نے محبت اور پیار کے انداز میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا : اے کپڑے میں لپٹنے والے آپ دن کو دین کی دعوت دیتے تھے رات کو نماز میں طویل قیام فرماتے تھے او راس میں قرآن کی تلاوت فرماتے تھے بعض اوقات پوری رات کھڑے رہتے جس سے قدم مبارک میں ورم آجاتا اللہ نے آپ کو اختیار دیا کہ آپ چاہیں تو آدھی رات قیام کریں یا آدھی سے کم یا کچھ زیادہ راتوں کا یہ قیام روحانی تربیت میں بڑا مؤثر ثابت ہوتا ہے اس لئے قیام لیل کا حکم دینے کے بعد فرمایا گیا یقیناً ہم تجھ پر عنقریب بہت بھاری بات نازل کریں گےبھاری بات سے مراد قرآن عظیم ہے جس کی ایک خاص ہیبت اور جلال ہے اس کا تحمل وہی کرسکتا ہے جس کا نفس علم و عرفان کے نور سے روشن ہوچکا ہواور باطن کی روشنی میں قیام لیل کو خاص دخل حاصل ہے اگلی آیات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان ایذاؤں پر صبر کرنے کا حکم دیاگیا ہے جو دین کی دعوت کے سلسلے میں مشرکین کی طرف سے آپ کو دی جاتی تھیں آپ کوستانے میں ان کے ہاتھ بھی استعمال ہوتے تھے اور زبانیں بھی استعمال ہوتی تھیں اس کے بعد یہ سورت آپ کے مکذبین کو ڈرانے کے لئے فرعون کا قصہ ذکر کرتی ہے جیسے اللہ نے اس کے کفر وسرکشی کی وجہ سے سخت وبال میں پکڑا سورت کے اختتام پر اللہ نے اپنے رسول او رمؤمنین پر تخفیف کا اعلان فرمایا ہے ایک تخفیف اس اعتبار سے ہے کہ نصف رات یا ثلث یا درثلث کا قیام ضروری نہیں بلکہ جتنا بھی آسانی سے ممکن ہو قیام لیل کرلیا جائے دوسرے تخفیف اس اعتبار سے ہے کہ اب مؤمنین پر تہجد فرض نہیں رہی اس کے حکم کو استحباب میں تبدیل کردیاگیا۔
(خلاصہ قرآن