تین طلاقوں کا مسئلہ

دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:103

مجیب مولانا عصمت اللہ صاحب

 رفیق  دارالافتاء  جامعہ دارالعلوم کراچی

 مصدقہ 

شیخ الاسلام حضرت مولانا  مفتی جسٹس مفتی تقی عثمانی  صاحب   مدظلہم  

ْ جامعہ  دارالعلوم  کراچی  

السلام علیکم  ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

 میں اپنے  مسئلہ کے بارے میں فتویٰ لینا  چاہتا ہوں  امید ہے کہ  آپ  رہنمائی فرمائیں  گے میں نے اپنی بیوی  کو کچھ گھریلو مسائل  سے پریشان ہوکر  اورا س  کے علیحدہ گھر   پر میں نے باقاعدہ تین طلا ق لکھ کر  بذریعہ کورٹ  بھیج دیں میری بیوی انتہائی  غصہ والی اور میری نافرمان بھی رہی  طلا ق سے پہلے  معاملات کو سنبھالنے  کے لیے میں نے  اپنے ماموں  کو بھیج بھی ڈالا مگرا س سےا ور  کچھ ان رویہ  سے غط فہمیاں اور بڑھی  اور مجھے یہ قدم  اٹھانا  پڑا میں نے یہ 4اکتوبر  1998 کو کیا اب ایک ماہ اور  15 دن گزرچکے ہیں  میری بیوی اب تمام  باتوں کی معافی مانگتی  ہےا ور بقول  اس  کے کہ وہ  پہلے بھی تیار  تھی مگر  میرے ماموں  کی غلط باتوں  کی وجہ سے  یہ سب کچھ  ہو ااس  لیے  میں بھی رجوع  کرنا چاہتا  ہو ں میرا  تعلق        حنفی فرقہ سے  ہے  ۔ میری معلومات  کے حساب سے اہل حدیث  حضرات  رجوع  کی اجازت دیتے ہیں ۔

 الجواب حامداومصلیاً

 سائل  کےسولات   کے حل  پیش کرنے سے  پہلے  ہم اصل  مسئلہ کو  قدرے  تفصیل سے بیان کرتے ہیں  ، جس میں یہ ثابت کریں  گے ایک مجلس  کی تین طلاقیں خواہ  ایک جملہ سے دی گئی  ہوں یا الگا لگ جملوں سے دی گئی ہوں ، تین طلاقیں    شمار ہوں گی  اور تینوں   طلاقیں واقع  ہوں گی  ،ا ور حرمت  مغلظ  ثابت ہوں گی  جس میں  رجوع  نہیں ہوسکتا  اور حلالہ  کے بغیر دوبارہ نکاح  باہم  نکاح بھی نہیں ہوسکتا  ،ا ور یہ کہ مذکورہ وقف  قرآن کریم  ، احادیث  صحیحہ  سے ثابت  ہے ،ا ور اسی  پر جمہور  صحابہ  اور تابعین  رضی اللہ عنھم  اور چاروں اماموں  یعنی حضرت امام ابو حنیفہ   حضرت امام مالک  ، حضرت امام  شافعی  اور حضرت امام احمد بن  حنبل  رحمہم اللہ تعالیٰ کا اتفاق ہے ۔

اگر کسی  نے ایک مجلس  میں اپنی بیوی  کو تین طلاقیں  دیں خواہ  ایک جملہ سے ہوں یا الگ الگ  جملوں سے ہوں  تو اس کا یہ فعل  خلاف سنت  اور ناجائز ہے  ، تاہم  اگر کسی نے  اس طریقہ سے  تین طلاقیں  دیں تو اس کی بیوی  پر تین  طلاقیں   واقع ہوکر  حرمت مغلظہ  ثابت ہوجائے گی ، ذیل میں اختصار  کے ساتھ قرآن کریم ،ا حادیث مبارکہ  ، آثار صحابہ  رضوان اللہ اجمعین  اور عبارات فقہ  ملاحظہ ہوں:

الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ  ( الآیۃ ( سورۃ البقرۃ )

” طلاق دو مرتبہ   کی ہے، پھر  خوا ہ قاعدہ کے مطابق   رکھ لے ، خواہ  اچھے طریقہ سے اس کو چھوڑ دے  “

 اس آیت کریمہ سے علماء  کرام نےا یک  دفعہ  میں تین طلاقیں دینے سے  تینوں  کے واقع ہونے  پر استدلال  کیاہے اور وہ اس طرح  کہ ا س آیت کریمہ  کا مضمون  یہ ہے کہ دو طلاق  دو دفعہ  کی ہے، اب اس میں دونوں احتمال ہیں کہ دو طلاق  الگ الگ طہر میں دے دیں  یا ایک ساتھ  دے دے بہر صورت  دونوں واقع  ہوں گی،ا ور جب  ایک وقت میں   دو طلاقیں  واقع ہوسکتی ہیں تو تین  بھی واقع ہوں گی  ا س لیے کہ دو اور تین  میں فرق کرنے والا کوئی نہیں ہےا ور امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی اپنی کتاب  صحیح بخاری  میں ” باب من اجاز الطلاق الثلث ” میں تین  طلاقوں  کے واقع  ہونے پرا سی  آیت کریمہ  سے استدلال کیاہے ۔

قال ابوبکر  الرازی  تحت عنوان   ” ذکر  الحجاج  لایقاع  الثلث معاً” قولہ تعالیٰ  : الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ الآیۃ یدل  وقوع  الثلث  معا مع  کونہ  منھا عنہ ذلک  لان قولہ تعالیٰ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ” قد  ابان عن حکمۃ اذا وقع  اثنین  بان یقول  : انت طالق ، انت  طالق فی  طھر  واحد  وقد  بینا ان ذلک خلاف  السنۃ فاذا کان فی مضمون الآیۃ  

اذا وقع  اثنین  بان یقول : انت طالق  ، انت طالق  فی طھر  واحد  وقد بینا ان ذلک  خلاف  السنۃ  فاذا کان فی مضمون  الآیۃ  الحکم   بجوا زوقوع  الاثنین  علی ھذا الوجہ  دل ذلک  علی صحۃ وقوعھا  لو اوقعھا  مواً لان  احداً لم یفرق بینھا  اھ   (رسالۃ حکم  الطلا ق الثلث  بلفث واحدا فتوی علماء الحرمین الشرفین )

وفی الصحیح الامام البخاری ۔۔۔الخ

وفی عمدۃ القاری شرح الصحیح للامام البخاری :ؒ : وجہ الاستدلال ۔۔۔الخ

اس آیت کریمہ کے علاوہ   بھی چند آیات مبارکہ   اور بھی ہیں  جن سے تین  طلاقوں   کے واقع ہونے  پر استدلال کیا گیاہے  ، ہم نے ایک آیت  کے ذکر  کو کافی سمجھا،ا ب چند احادیث  طیبہ  ملاحظہ ہوں  جن سے مذکورہ موقف  ثابت ہورہاہے :

فی السنن النسائی  : اخبر رسول اللہ ﷺ ۔۔الخ

” آنحضرت ﷺ کو اطلاع پہنچی  کہ ایک شخص نے اکھٹی  تین طلاقیں  دے دی  ہیں، یہ سن کر  آپ غصہ میں کھڑےہوگئے  اور فرمایاکہ میری موجودگی  میں اللہ تعالیٰ  کی کتاب  سے کھیلا جارہاہے ۔”

اس روایت میں آپ نے غصہ  کا اظہار  تو کیا  لیکن تین   طلاقوں کو ایک طلا ق  قرار  نہیں  دیا، بلکہ تینوں  کو نافذ  فرمایا  جیسا کہ ابن القیم   رحمۃ اللہ نے فرمایا  :

 ” فلم  یردہ النبی ﷺ بل امضاہ “

 عن سھل بن سعد  فی ھذا الخبر قال:۔۔۔الخ

 “حضرت عویمر  رضی اللہ نے اپنی بیوی  کو آنحضرت ﷺ کے سامنے تین طلاقیں دیدیں  ، تو آپ نے تینوں کو نافذ فرمادیا “۔

کان ابن  عمر رضی اللہ عنھا اذا سئل  عمن ۔۔۔۔۔ ( بخاری شریف )

“حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے جب  اس شخص کے متعلق سوال کیاجاتا جس نے تین  طلاقیں  دی ہوں تو  فرماتے : اگر تونے ایک یا دو طلاقیں دی ہوتیں ( تو رجوع   کرسکتا تھا ) اس لیے  کہ حضور ﷺ نے مجھ  کو اس کا  ( یعنی   رجعت کا ) حکم  دیاتھا،ا ور اگر تین  طلاقیں دے دیں  تو عورت حرام ہوجائے گی  یہاں تک  وہ دوسرے مرد سے نکاح   کرے ،

ان احادیث  مبارکہ کے علاوہ  بھی ایسی روایات موجود ہیں جو ا سبات  پر دلالت کرتی ہیں کہ آپ کے عہد  مبارک میں تین  طلاقیں  تین ہی شمار ہوتی تھیں ۔

غیر مقلدین  حضرات  جو ایک مجلس  کی تین طلاقوں کو ایک طلا ق شمار  کرتے ہیں وہ عام طور  پر دوروایات  سےا ستدلال کرتے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں :

 ” حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دیدیں  اور پھروہ  بہت افسردہ ہوگئے  ، آنحضرت ﷺ نےا ن سے دریافت   کیاکہ تم نے کیسے طلاق  دی؟ انہوں نے  عرض کیا تین طلاقیں،   آپ نے  پوچھا ایک مجلس میں ؟ عرض  کیا جی ہاں  ،ا سپر  آپ نے فرمایا  : پھر  تو رجوع   کرلو ،چنانچہ  انہوں نے رجوع کرلیا “۔

 حدیث نمبر 2  :  حڑت ابن عباس رضی اللہ عنہ  نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ  کے مانہ میں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ   کے زمانہ  خلافت  کے شرعو میں  ( ایک مجلس کی ) تین  طلاقیں ایک ہوا کرتی تھی ۔

 غیر مقلدین  اپنے موقف    کو  کو ثابت  کرنے کے لیےعام طور پر مذکورہ بالا ان دو روایتوں  سےا ستدلال کرتے  ہیں ، لیکن ان روایتوں  سے استدلال کرت ہیں  ، لیکن ان روایتوں سے مذکورہ وقف   پرا ستدلال   درست نہیں ، وجوہات  درج ذیل ہیں :

حدیث نمبر 1 میں حضرت  رکانہ رضی اللہ  عنہ کی طلاق کا جو قصہ  مذکور  ہے ا سمیں روایات  کے اندرا ضطراب پایا جاتا ہے  بعض روایت   میں ہے کہ حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی تھٰں  جیسا کہ مذکورہ روایت  میں ہے ،ا ور بعض روایت  میں آیا ہے کہ  انہوں نے  اپنی  بیوی کو لفظ ”  بتہ ”  سے طلاق دی تھی،ا ور  طلاق ” بتہ”  سے مراد  وہ  طلا ق  ہے جس میں ایک سے تین  طلاقوں  تک کی گنجائش  ہوتی ہے، یعنی  اگر ایک طلاق کی نیت  ہوتو ایک ،ا ور تین   کی نیت   ہوتو تین  طلاقیں واقع  ہوں گی ،ا سی اضطراب  کی وجہ سے اس روایت  کے بارے میں علماء حدیث  نے مختلف اقوال اختیار کیے ہیں  مثلا ً :

 حضرت امام بخاری ؒ   رحمہ اللہ نے ا س کو  ” معلول ” قرار دیا ہے  ۔

علامہ ابن  عبدالبر  ؒ  نے اس کو ضعیف   کہا۔

حضرت امام ابوبکر  حصاص ؒ  اور علامہ ابن الہمام  ؒ نے اس کو  ” منکر ” فرمایا ۔

کیونکہ ان روایت میں ان معتبر  اور ثقہ راویوں کی روایت  کے خلاف ہے جنہوں نے لفظ   ” بتہ ”  کے ذریعہ  طلاق دینا نقل کیاہے ۔

حضرت امام ابوداؤد ؒ نے  بھی اس کو ترجیح  دی ہے کہ حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ  نے اپنی بیوی کو  طلاق ” بتہ”  دی تھی  ،کیونکہ حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ  کے گھر والوں  نے اس کو روایت   کیاہے اور گھر والے  گھر کے قصہ  کو دوسروں  سے زیادہ جانتے ہیں،  چنانچہ امام ابوداؤدرضی اللہ   نے فرمایا:

“حضرت یزید  اپنے والد  حضرت رکانہ رضی اللہ  عنہ  سے روایت کرتے ہیں  کہ انہوں نے  اپنی بیو ی  کو طلاق  ” بتہ ”   دے دی پھر آنحضرت ﷺ کے پاس آئے  ، آپ نے ان سے دریافت  فرمایا کہ تمہاری نیت  کیاتھی؟َ عرض کیا ایک  طلاق  کی، آپ نے  فرمایا خدا کی قسم  ؟ عرض  کیا جی ہاں  خدا کی قسم  ، آپ نے  فرمایا جو تم   نے  نیت کی وہی معتبر ہے  ( یعنی نیت  کے  مطابق ایک طلاق واقع  ہوئی )  امام ابوداؤد  نے فرمایا کہ یہ حدیث  کے بیان کرنے والے ان ان کے اپنے  گھر کے افراد  ہیں اور وہ ا سواقعہ  کو دوسروں کے مقابلہ  میں زیادہ جانتے ہیں  “۔

خلاصہ  یہ کہ حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ  نےا س وجہ  سے رجوع  نہیں کیاتھا کہ ایک مجلس  کی تین طلاقوں کو حضور ﷺ نے ایک طلاق  شمار کرکے  ان کو رجوع  کا حکم دیا تھا بلکہ  اس وجہ سے انہوں نے رجوع کیاتھا کہ انہوں نے  اپنی بیوی کو ایک طلاق  کی نیت سے طلاق ” بتہ ” دی تھی  ۔

 حدیث نمبر  2:ا سی طرح  غیر مقلدین  کا اس حدیث  شریف سے بھی اپنے  موقف استدلال  کرنا  درست  نہیں ، وجوہات   درج ذیل ہیں  :

الف :  اس روایت  میں راوی  کو ” وہم ”  ہوا ہے ۔کیونکہ  ابن طاؤس  ؒ سے  اس کے خلاف  روایت منقول   ہے،ا ور علامہ  یحیٰ ؒ  نے حضرت ابن طاؤس  کی روایت  کو صحیح قرار  دیاہے ۔ چنانچہ  اوجز المسالک میں اس  مضمون  کو درج ذیل الفاظ  میں  بیان  فرمایا ہے:

فی اوجز  المسالک  شرح الموطا  للامام  مالک نقلاً۔۔۔۔ الخ

وفی السنن الکبریٰ للنیھقی : وھذا لحدیث  مااختلف ۔۔۔۔ ( 7/337)

اس حدیث کے بارے میں  حضرت امام بخاری ؒ  وامام مسلم رحمہ اللہ کا  اختلاف ہوا ،سوا مام  مسلم ؒ  نے اس کو اپنی کتاب  نقل کیااورا مام بخاری ؒ  نے ا س روایت  کو ا س لیے نہیں لیا کہ یہ روایت  حضرت ابن  عباس   رضی اللہ عنہ  کی دیگر  روایات کے خلاف  ہے ۔”

وفی الجواھر  النقی  علی ۔۔۔الخ  (  7:337)

” صاحب  استذکار ؒ نے فرمایا کہ  یہ روایت  وہم اور غلط  ہے، علماء  میں سے کسی نےا س کو  ذکر نہیں کیا ہے “

ب: اگر  وہم وغیرہ  سے قطع نظر  بھی کی جائے  تو بھی اس حدیث  کے کئی معنی ومطلب  ہوسکتے ہیں ،ا یک   مطلب   وہ بھی بن سکتا  ہے جو غیر مقلدین  نے لیا ہے، لیکن  یہ مطلب دوسری احادیث کی بناء پر  درست نہیں  ،ا ور فقہاء  کرام ؒ  میں سے کسی   نے بھی  اس مطلب  کو صحیح قرار  دے کر یہ نتیجہ  نہیں  نکالا   کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں  تین نہیں بلکہ ایک شمار ہوگی  ۔ لہذا اس کا سب سے زیادہ  صحیح اور قوی  معنی  وممطلب  ذیل میں  بیان کیاجاتا ہے  جسے  امام قرطبی ؒ  نے پسند فرمایا ہے اور جس کو خود  حضرت  عمر رضی اللہ  عنہ کے قول  سے تقویت ملتی ہے ۔

 اس حدیث  شریف  میں کسی  عام  قاعدہ  کا ذکر نہیں ، بلکہ اس کا تعلق ایک خاص صورت سے ہے  اور یہ کہ شوہر لفظ  

طلا ق ” تاکید ”  کی نیت سے  دہرائے  ، ہر جملہ  سےا لگ الگ  کی نیت نہ ہو، تو اس صورت   میں شوہر  کی  تصدیق  کی جائے گی ا ور ایک ہی طلاق  کے واقع  ہونے کا حکم جاری  کیاجائے گا ، لیکن شوہر کی  تصدیق اس وقت  تک کی جاتی  تھی اور شوہر  پر اس وقت  تک اعتماد  کیاجاتا تھا جب لوگوں  کے سینے  اور دل  دھوکہ  وفریب  سےصاف  وشفاف تھے  ، لیکن جب  حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ   کے زمانہ میں لوگوں میں  جھوٹ،  دھوکہ اور فریب کا رواج  ہونے لگا اور اب  کسی کی دیانت پر بھروسہ کرکےا س کے دعویٰ کی تصدیق  مشکل ہوگئی  ، تو حضرت  عمررضی اللہ عنہ  نے ظاہر تکرا ر کو دیکھ کر  اس کے مطابق  تینوں  طلاقوں کو نافذ فرمایا اور نیت  تاکید  کے دعویٰ کو قبول نہیں  فرمایا۔

  فی تکملۃ  فتح الملھم  ۔۔۔۔۔ (1،158)

“ا س جواب کو علامہ قرطبی نے پسند فرمایااور حضرت  عمر رضی اللہ عنہ  کے قول  سےا س  کی تائید  بھی فرمائی  جس میں انہوں نے فرمایا کہ لوگوں  نے مہلت  والی چیز  میں جلد بازی  سے کام لیا، حضرت امام نووی رحمہ اللہ  نے بھی یہی فرمایا ہےا ور  یہ صحیح ترین  جواب ہے  “۔

 اب چند مشہور  اور کبائر  صحا بہ کرام رضی اللہ عنہ  کے فتاویٰ ملاحظہ  ہوں جن میں تین طلاقوں  تین ہی شمار  کی ہیں ‘ یہ فتاویٰ مصنف  ابن ابی شیبہ   میں مذکور  ہیں :

 کان عمر  اذا اتی  برجل  قد طلق  امراتہ  ثلاثا فی مجلس ارجعہ  ضرباً وفرق بینھما  

 “حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کی خدمت میں  جب کسی ایسے شخص کو حاضر  کیاجاتا  جس نے اپنی  بیوی  کو ایک  مجلس میں تین طلاقیں   دی ہوں ، تو حضرت  عمر رضی اللہ عنہ اس کو سزا  دیتےا ور  میاں بیوی  کے درمیان علیحدگی  بھی فرماتے  “َ

 جاء   رجل  الی عثمان  فقال  : انی  طلقت  امراتی  مائۃ  قال:  ثلاث  تحرمھا  علیک  وسبعۃ  وتسعون  عدوان  

 ” ایک آدمی  حضرت عثمان  رضی اللہ عنہ کے پاس  آیا اور کہا کہ میں نے اپنی بیوی  کوسو طلاقیں دی ہیں ،ا سپر انہوں نے  فرمایا کہ تین طلاقوں سے بیوی  تمہارے اوپر   حرام ہوگئی اور باقی  ستانوے  حد سے تجاوز ہے “۔

جاء رجل  الی علی  فقال : انی  طلقت  امراتی  الفاء  ، قال  بانت  منک  بثلاث   اھ

” ایک آدمی  حضرت علی رضی اللہ عنہ  کے پاس آکر عرض  کرنے لگا کہ میں نے اپنی کو ایک ہزار  طلاقیں  دیں ، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا  کہ تین  طلاقوں   سے بیوی  تم سے الگ  ہوگئی  “۔

 عن عبداللہ  انہ سئل عن رجل  طلق  امراتہ  ماٰۃ  تطلیقۃ، قال :  حرمتھا ثلاث

 ” حضرت  عبداللہ رضی اللہ عنہ  سے کسی  شخص  کے بارے میں  پوچھاگیا  جس نے اپنی بیو  ی کو سو  طلاقیں دی تھی، تو انہوں نے  فرمایا کہ وہ تین طلاقوں  سے حرام ہوگئی ۔”

ان حضرات صحابہ  کرام رضوان اللہ اجمعین کے علاوہ  حضرت ابن عمر ، حضرت ابن عباس ، حضرت عمران بن حصین  اور حضرت مغیرہ   بن شعبہ   وغیرہم   رضی اللہ تعالیٰ عنھم کا فتویٰ بھی یہی ہے  کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں  تین ہی شمار ہوں گی ۔

اب مذاہب  اربعہ  کی عبارات  ملاحظہ ہوں !

 قال ابن الھمام الحنفی  رحمہ اللہ : وذھب  جمہور الصحابۃ والتابعین  ومن بعدھم  من ائمۃ المسلمین  الی انہ یقع  ثلاثا ( فتح القدیر  3:25)

” جمہور صحابہ  رضی اللہ عنہم  ، تابعین  اور بعد میں آنے والے  اماموں کا مذہب یہی ہے کہ تین  طلاق اپنے کی  صورت  میں تینوں طلاقیں واقع ہوں گی “۔

وقال العلامۃ الحطاب المالکی رحمہ اللہ : وکلما طلق یلزمہ اھ۔

” تین طلاقیں شوہر جس طریقہ سے  بھی دے دے  وہ تینوں نافذ ولازم  ہوں گی “۔

 وقال العلامۃ النووی الشافعی رحمہ اللہ :

 فقال الشافعی  ومالک وابو حنیفۃ واحمد  وجماھیر  العلماء  من السلف  والخلف  یقع  الثلث  

 شرح النووی شرح الصحیح الامام مسلم   ؒ 1:478 )

 “حضرت امام شافعی ، حضرت امام مالک ، حضرت امام ابو حنیفہ  ،  حضرت  امام احمد  بن حنبل  اور اگلے   پچھلے  علماء  میں سے جمہور  علمائ کرام کا مذہب یہی ہے کہ تین طلاق دینے کی صورت میں تین  ہی وقع ہوں گی  ” ، ( شرح  النووی 1: 478)

وقال العلامۃ ابن قدامۃ رحمہ اللہ

وان طلق ثلاثا بکلمۃ واحد ۃ وقع  الثلث  وحرمت   علیہ حتی تنکح  زوجاً وغیرہ  

 ( بحوالہ  رسالہ  حکم  الطلاق  الثلث  بلفظ  واحد اعنی  فتویٰ  علماء الحرمین  الشریفین  بالعربیۃ )

” اگر شوہر  نے بیوی کو تین طلاقیں  دیں توتینوں   واقع ہوں گی ،

واللہ  تعالیٰ اعلم

عصمت اللہ  عصمہ اللہ

دارلافتاء جامعہ دارالعلوم  کراچی

 پی ڈی ایف فائل اور عربی حوالہ جات کے لیے لنک پر کلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/556980138004569/

اپنا تبصرہ بھیجیں