تحریرمیں طلاق سے طلاق ہوجاتی ہے تاریخ و گواہوں کی ضرورت نہیں

فتویٰ نمبر:757

سوال :جناب ماموں جان السلام علیکم !

بعد عرض یہ ہے آپ نے میرے گھر میں صلح کرائی اور میری بیوی نے پھر میرے ساتھ جھگڑا کیا ۔

لہذا اب میں حاضر دماغ ہو کہ اپنی بیوی سلیمہ ولد عرفان کو “طلاق ،طلاق ، طلاق “دیتا ہوں ۔

فقط :محمد زاہد ولد اکرم

یہ خط کا مضمون ہے یہ خط محمد زاہد نے اپنے ماموں کو دیا ہے زاہد اور سلیمہ آپس میں خالہ زاد رشتے دار ہیں ۔

لہذا دونوں میاں بیوی کا ماموں ایک ہی ہے اور لڑکی کے پیٹ میں ۷ مہینے کا بچہ بھی ہے یہ  خط ابھی تک لڑکی کو نہیں دیا ہے ۔

بلال کالونی میں ایک مسجد امام سے اس خط کا پڑھایا انہوں نے کہا اس طرح طلاق نہیں ہوتی کیونکہ اس خط میں نہ تاریخ  لکھی ہے نہ کوئی گواہ بنایا ہے ۔

انہوں نے طلاق کا طریقہ یہ بتایا  لڑکی جب بچہ پیدا کرلے ۴۰ دن بعد جب وہ نہالے پھر اس کے بعد اس کا شوہر طلاق دے گا اور ساتھ میں مہر دےگا اور تین مہینے کا خرچہ بھی دے گا پھر طلاق ہوجائے گی ۔

لہذا اب آپ بتائیں کہ لڑکی کو طلاق ہوگی یا نہیں ؟

الجواب حامداً ومصلیاً

صورتِ مسؤلہ میں مذکورہ خط کی روشنی میں محمد زاہد کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں ، نکاح ختم ہوگیا،اور عورت اپنے شوہر پر حرام ہوگئی ۔اب حلالہ شرعیہ کے بغیر اس سے دوبارہ نکاح کرنا یا سابقہ ازدواجی تعلقات قائم کرنا جائز نہیں ۔

اور عورت کی عدت بچہ جننے کے بعد ختم ہوجائے گی ،اور وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح کرنے کیلئے آزاد ہوگی ۔

            امام صاحب کا قول فقہی احکام کےخلاف ہونے کی وجہ سے قطعاً معتبر نہیں ۔

            تحریری طلاق کے واقع ہونے کے لئے تاریخ تحریر کرنے اور اس پر گواہ بنانے کو نہ تو قرآن و حدیث میں شرط قرار دیا گیا ہے اور نہ ہی حضراتِ فقہاء اور مفتیان ِ کرام نے اس کا ذکر فرمایا ہے ۔

            مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان صاحب سے اپنی طرف سے بتائے ہوئے مسئلہ پر کسی ثبوت  یا دلیل کا مطالبہ ہو ۔

تاکہ جب انہیں باوجود تلاش کے کہیں بھی اس پر دلیل نہ مل سکے تو ّآئندہ بے دلیل مسئلہ بتانے سے احتراز کریں ۔

            چناچہ فتاویٰ شامی میں ہے :

رد المحتار- (3 / 246)

 قَالَ فِي الْهِنْدِيَّةِ: الْكِتَابَةُ عَلَى نَوْعَيْنِ: مَرْسُومَةٍ وَغَيْرِ مَرْسُومَةٍ، وَنَعْنِي بِالْمَرْسُومَةِ أَنْ يَكُونَ مُصَدَّرًا وَمُعَنْوَنًا مِثْلُ مَا يُكْتَبُ إلَى الْغَائِبِ. وَغَيْرُ الْمَرْسُومَةِ أَنْ لَا يَكُونَ مُصَدَّرًا وَمُعَنْوَنًا، وَهُوَ عَلَى وَجْهَيْنِ: مُسْتَبِينَةٍ وَغَيْرِ مُسْتَبِينَةٍ، فَالْمُسْتَبِينَةُ مَا يُكْتَبُ عَلَى الصَّحِيفَةِ وَالْحَائِطِ وَالْأَرْضِ عَلَى وَجْهٍ يُمْكِنُ فَهْمُهُ وَقِرَاءَتُهُ. وَغَيْرُ الْمُسْتَبِينَةِ مَا يُكْتَبُ عَلَى الْهَوَاءِ وَالْمَاءِ وَشَيْءٌ لَا يُمْكِنُهُ فَهْمُهُ وَقِرَاءَتُهُ. فَفِي غَيْرِ الْمُسْتَبِينَةِ لَا يَقَعُ الطَّلَاقُ وَإِنْ نَوَى، وَإِنْ كَانَتْ مُسْتَبِينَةً لَكِنَّهَا غَيْرَ مَرْسُومَةٍ إنْ نَوَى الطَّلَاقَ وَإِلَّا لَا، وَإِنْ كَانَتْ مَرْسُومَةً يَقَعُ الطَّلَاقُ نَوَى أَوْ لَمْ يَنْوِ۔۔۔۔۔۔۔

التخريج

الدر المختار – (3 / 246)

كتب الطلاق إن مستبينا على نحو لوح وقع إن نوى وقيل مطلقا

الفقه الإسلامي وأدلته-أ. د. وهبة الزحيلي – (9 / 361)

فإن كتب الطلاق عازماً عليه أو لم يكن له نية، لزمه بمجرد كتابة.

اپنا تبصرہ بھیجیں