توبہ کے بعد قیامت میں گناہ پر گواہی دی جائے گی؟

فتویٰ نمبر:4085

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! 

(1)ہمارے اعضاء سے جو گناہ سرزد ہوتے ہیں قیامت کے دن ہر ایک عضو گواہی دے گاتو کیا جو گناہ معاف ہوئے ہوں تب بھی گواہی دیں گے؟

(2)اگر ہم ان گناہوں پر استغفار کریں اور شرمندہ ہوں اور پھر سے وہ گناہ ہوجاتے ہوں تو کیا پھر بھی اللہ تعالی معاف فرمادیتے ہیں ان گناہوں کو؟

(3)اسی کے ساتھ یہ بھی پوچھنا تھا کہ اگر کوئی اپنے منگیتر سے میسج پر بات کرتا ہے تو کیا ہاتھ گواہی دیں گے قیامت کے دن کہ ہم سے یہ گناہ کیا تھا اس نے…منگیتر بھی ایسا کہ بچپن میں رشتے کی بات ہوئی تھی اور یقین ہو کہ اسی کے ساتھ شادی ہوگی۔

والسلام

الجواب حامداو مصليا

(1) اللہ سبحانہ وتعالی کی ذات غفور رحیم ہے اور انسان خطا کا پتلا ہے۔جب کوئی انسان سچے دل سے توبہ کرے اور اس گناہ کو بھی چھوڑ دے تو اللہ سبحانہ وتعالی اس بندے کی توبہ قبول فرماتے ہیں اور توبہ کے قبول ہونے کا مطلب یہی ہے ان شاء اللہ تعالی اب اس گناہ پر آخرت میں کوئی مواخذہ نہیں ہوگا بلکہ قرآن کریم میں اللہ سبحانہ و تعالی نے توبہ کرنے کی وجہ سے انسان کے گناہوں کو نیکیوں میں بدلنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

“إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا “(الفرقان:70)

ترجمہ: “مگر جو توبہ کرلے اور ایمان لے آئے اور نیک کام کرے تو اللہ ان کی بداعمالیوں کو نیک کاریوں سے بدل دے گا”۔

(2) اگر سچے دل سے توبہ کی اور اس گناہ کو چھوڑ دیا اور وہ گناہ پھر سے سرذر ہوگیا تو مایوس نہ ہو دوبارہ سچے دل سے توبہ کریں اللہ سبحانہ وتعالی کی ذات سے قوی امید ہے کہ وہ معاف فرمادیں گے اور کوئی مواخذہ نہیں فرمائیں گے

(3) بعض علاقوں میں یہ رواج ہوتا ہے کہ منگنی کے موقع پر ہی گواہوں کی موجودی میں باقاعدہ ایجاب و قبول ہوجاتا ہے تو اگر آپ کی منگنی اس طور پر ہوئی ہے تو پھر بات چیت میں کوئی حرج نہیں۔ البتہ اگر منگنی صرف وعدہ نکاح کے طور پر ہوا ہے تو اس صورت میں منگیتر نامحرم ہی رہتا ہے لہذا بات چیت کرنا جائز نہیں تو اس پر مواخذہ بھی ہوگا۔

(1)◼”اللَّهُ أفْرَحُ بتَوْبَةِ عَبْدِهِ مِن أحَدِكُمْ، سَقَطَ علَى بَعِيرِهِ، وقدْ أضَلَّهُ في أرْضِ فَلاةٍ”.

( صحيح البخاري:6309)

◼”التَّائبُ مِنَ الذَّنبِ ، كمَن لا ذَنبَ لَهُ”.

(ابن ماجة :117/1 )

◼قَالَ العلماءُ: “التَّوْبَةُ وَاجبَةٌ مِنْ كُلِّ ذَنْب, فإنْ كَانتِ المَعْصِيَةُ بَيْنَ العَبْدِ وبَيْنَ اللهِ تَعَالَى لاَ تَتَعلَّقُ بحقّ آدَمِيٍّ, فَلَهَا ثَلاثَةُ شُرُوط:

أحَدُها: أنْ يُقلِعَ عَنِ المَعصِيَةِ.

والثَّانِي: أَنْ يَنْدَمَ عَلَى فِعْلِهَا.

والثَّالثُ: أنْ يَعْزِمَ أَنْ لا يعُودَ إِلَيْهَا أَبَداً. فَإِنْ فُقِدَ أَحَدُ الثَّلاثَةِ لَمْ تَصِحَّ تَوبَتُهُ.

وإنْ كَانَتِ المَعْصِيةُ تَتَعَلقُ بآدَمِيٍّ فَشُرُوطُهَا أرْبَعَةٌ: هذِهِ الثَّلاثَةُ, وأنْ يَبْرَأ مِنْ حَقّ صَاحِبِها, فَإِنْ كَانَتْ مالاً أَوْ نَحْوَهُ رَدَّهُ إِلَيْه, وإنْ كَانَت حَدَّ قَذْفٍ ونَحْوَهُ مَكَّنَهُ مِنْهُ أَوْ طَلَبَ عَفْوَهُ, وإنْ كَانْت غِيبَةً استَحَلَّهُ مِنْهَا”

(ریاض الصالحین:33)

(3)◼”فإذا نجیز الکلام مع النساء للأجانب ومحاور تھن عند الحاجۃ إلیٰ ذلک ولا نجیز لھن رفع أصواتھن، ولا تمطیطھا، ولا تلیینھا وتقطیعھا لما في ذلک من استمالۃ الرجال إلیہن وتحریک الشھوات منھم”۔

(الدرالمختار مع الشامي، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاة: 77/2 تا 79)

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ:4 رجب 1440ھ

عیسوی تاریخ:13 مارچ 2019ء

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں