ٹی وی کو بیچنا اور اس کی قیمت کو مسجد میں لگانے کا حکم

سوال:اگر کسی کے پاس ٹیلی ویژن ہوتو کیا اس کو بیچناجائز ہے؟اور اس کو بیچ کر اس کی رقم مسجد وغیرہ میں دے سکتے ہیں یااپنے استعمال میں لا سکتے ہیں؟

                                                                                                            سائل: محمدعظیم

الجواب حامدا ومصلیا

ٹی وی بلا شبہ  بے شمار دینی اور دنیاوی خرابیوں پر مشتمل ہے اوراس کا غالب استعمال  بھی  ناجائز طریقوں سے ہو رہا ہےاس لیے اصل حکم تو یہ ہے کہ اس کی خریدوفروخت سےمکمل اجتناب کیا جائے  ۔

تاہم  چونکہ بحالت موجودہ  اس کا جائز استعمال بھی ممکن ہے جیسے عمارتوں،تفریحی مقامات ، درختوں ،یا طلوع وغروب یادیگرجائز مناظردیکھنےکےلیےاستعمال کیا جائےیاسیکورٹی کےپیش نظر استعمال کیا جائے،جیسا کہ ہوائی اڈوں اورحساس مقامات میں انہی  مقاصد کے لیے استعمال ہو تا ہے ،تو ایسے جائز مقاصد کے لیے ٹی وی کی خریدوفروخت جائز اورآمدنی حلال ہے ۔

البتہ  ایسےشخص کے ہاتھ ٹی وی  فروخت کرنا جس کے متعلق غالب گمان یہ ہو  کہ وہ کثرت سےاس کوناجائز کاموں میں استعمال کریگا   تو چونکہ اس میں گناہ کے کاموں کی  کسی درجہ میں مددہوتی ہے لہذا اس کا ایسے شخص کے ہاتھ   فروخت کرنا مکروہ ہے ، تاہم اگرکسی نے ایسے شخص کے ہاتھ فروخت کر دیا تو اس کی قیمت کراہت کے ساتھ جائز ہوگی،کیونکہ اس کا جائز استعمال بھی  ممکن ہے،لہذا جب اس کی آمدنی جائز ہوئی تو اسے خود استعمال کرنا یا مسجد یا دیگر نیکی کے کام میں لگانا بھی جائز ہوگا۔

نیز بہتر یہ ہےکہ ٹی وی ایسے شخص کو فروخت کیا جائے جس کے متعلق غالب گمان یہ ہو کہ وہ اس کو ناجائز استعمال نہیں کرےگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 391)

(بخلاف بيع أمرد ممن يلوط به وبيع سلاح من أهل الفتنة) لأن المعصية تقوم بعينه ثم الكراهة في مسألة الأمرد مصرح بها في بيوع الخانية وغيرها واعتمده المصنف على خلاف ما في الزيلعي والعيني وإن أقره المصنف في باب البغاة. قلت: وقدمنا ثمة معزيا للنهر أن ما قامت المعصية بعينه يكره بيعه تحريما وإلا فتنزيها. فليحفظ توفيقا.

         جواھرالفقہ  :تفصیل الکلام فی مسئلۃ الاعانۃ علی الحرام (7/513)مکتبہ دار العلوم۔

ثم السبب ان لم یکن محرکا وداعیا ،بل موصلا محضا ، وھو مع ذلک سسب قریب بحیث لا یحتاج فی اقامۃ  المعصیۃ بہ الی احداث صنعۃ من الفاعل ،کبیع السلاح من اھل الفتنۃوبیع العصیر ممن یتخذہ خمرا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔فکله مکروہ تحریما بشرط ان یعلم البائع والآجرمن دون تصریح بہ باللسان ، فانہ ان لم یعلم کان معذورا۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

محمد رفیق غفرلہ ولوالدیہ

نور محمد ریسرچ   سینٹر

دھوراجی کراچی

4جمادی الاولی1441

31دسمبر    2019

اپنا تبصرہ بھیجیں