والد کا خودکشی کی دھمکی دے کر بیٹے سے زبردستی طلاق دلوانا 

فتویٰ نمبر:2010

سوال: محترم جناب مفتیان کرام!

السلام علیکم

ایک لڑکے نے اپنے والد کے زبردستی کہنے پر طلاق کے پیپر بنوائے اور اس کے گھر جاکے اپنی سالی کے ہاتھ میں پیپر دیے اور کہا اس کو کھولنا نہیں میں دو گھنٹے میں آرہا ہوں یہ پیپر لینے ، سالی نے وہ پیپر کھول لیے اور اس کی بیوی نےبھی دیکھ لیے طلاق کے پیپر، وہ لڑکا دو گھنٹے بعد آیا اور بہت غصہ کیا اور پیپر لے کے جلا دیے ؛ پوچھنا یہ ہے اس کو طلاق ہوگئی ؟

تنقیح ۔ بہنوئی کوان کے والد نے کس قسم کی دھمکی دی تھی ؟

جواب تنقیح ۔ بہنوئی کے والد نے اپنے آپ کو مارنے کی دھمکی دی تھی ۔

والسلام

الجواب حامداو مصليا

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ!

اگر بہنوئی کے والد نے ان کو طلاق پر مجبور کرکے کاغذات بنوائے اور طلاق نہ دینے کی صورت میں خود کو جان سے مارنے کی دھمکی دی جبکہ بہنوئی کو یقین یا غالب گمان تھا کہ اگر وہ طلاق نہ دیتے تو والد خود کو مارنے کی کوشش کرلیتے ؛ تو یہ صورت اکراہ کی ہے اور اکراہ کی حالت میں تحریری طلاق دینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی؛ لہذا آپ کی بہن کو طلاق واقع نہیں ہوئی اور اگر ایسی صورتحال نہیں تھی ، بلکہ محض دباو کی بناء پر طلاق کے کاغذات بنوائے تو پھر یہ اکراہ کی صورت نہیں ہوگی اور جتنی طلاق لکھی گئی وہ واقع ہوجائے گی۔

(قَوْلُهُ: أَوْ حَبْسٍ) أَيْ حَبْسِ نَفْسِهِ قَالَ الزَّيْلَعِيُّ: وَالْإِكْرَاهُ بِحَبْسِ الْوَالِدَيْنِ أَوْ الْأَوْلَادِ لَا يُعَدُّ إكْرَاهًا لِأَنَّهُ لَيْسَ بِمُلْجِئٍ وَلَا يُعْدِمُ الرِّضَا بِخِلَافِ حَبْسِ نَفْسِهِ اهـ لَكِنْ فِي الشُّرُنْبُلَالِيَّةِ عَنْ الْمَبْسُوطِ: أَنَّهُ قِيَاسٌ وَفِي الِاسْتِحْسَانِ حَبْسُ الْأَبِ إكْرَاهٌ وَذَكَرَ الطُّورِيُّ أَنَّ الْمُعْتَمَدَ أَنَّهُ لَا فَرْقَ بَيْنَ حَبْسِ الْوَالِدَيْنِ وَالْوَلَدِ فِي وَجْهِ الِاسْتِحْسَانِ زَادَ الْقُهُسْتَانِيُّ: أَوْ غَيْرِهِمْ: مِنْ ذَوِي رَحِمٍ مَحْرَمٍ وَعَزَاهُ لِلْمَبْسُوطِ.( الدر المختار مع رد المحتار : ٦\١٢٨)

وفیہ ایضا۔

الْإِكْرَاهِ. (هُوَ لُغَةً حَمْلُ الْإِنْسَانِ عَلَى) شَيْءٍ يَكْرَهُهُ وَشَرْعًا (فِعْلٌ يُوجَدُ مِنْ الْمُكْرَهِ فَيُحْدِثُ فِي الْمَحَلِّ مَعْنًى يَصِيرُ بِهِ مَدْفُوعًا إلَى الْفِعْلِ الَّذِي طُلِبَ مِنْهُ) وَهُوَ نَوْعَانِ تَامٌّ وَهُوَ الْمُلْجِئُ بِتَلَف نفس أَوْ عُضْوٍ أَوْ ضَرْبٍ مُبَرِّحٍ وَإِلَّا فَنَاقِصٌ وَهُوَ غَيْرُ الْمُلْجِئِ. (وَشَرْطُهُ) أَرْبَعَةُ أُمُورٍ: (قُدْرَةُ الْمُكْرِهِ عَلَى إيقَاعِ مَا هَدَّدَ بِهِ سُلْطَانًا أَوْ لِصًّا) أَوْ نَحْوَهُ (وَ) الثَّانِي (خَوْفُ الْمُكْرَهِ) بِالْفَتْحِ (إيقَاعَهُ) أَيْ إيقَاعَ مَا هُدِّدَ بِهِ (فِي الْحَالِ) بِغَلَبَةِ ظَنِّهِ لِيَصِيرَ مُلْجَأً (وَ) الثَّالِثُ: (كَوْنُ الشَّيْءِ الْمُكْرَهِ بِهِ مُتْلِفًا نَفْسًا أَوْ عُضْوًا أَوْ مُوجِبًا غَمًّا يُعْدِمُ الرِّضَا) وَهَذَا أَدْنَى مَرَاتِبِهِ وَهُوَ يَخْتَلِفُ بِاخْتِلَافِ الْأَشْخَاصِ فَإِنَّ الْأَشْرَافَ يُغَمُّونَ بِكَلَامٍ خَشِنٍ، وَالْأَرَاذِلَ رُبَّمَا لَا يُغَمُّونَ إلَّا بِالضَّرْبِ الْمُبَرِّحِ ابْنُ كَمَالٍ (وَ) الرَّابِعُ: (كَوْنُ الْمُكْرَهِ مُمْتَنِعًا عَمَّا أُكْرِهَ عَلَيْهِ قَبْلَهُ) إمَّا (لِحَقِّهِ) كَبَيْعِ مَالِهِ (أَوْ لِحَقِّ) شَخْصٍ (آخَرَ) كَإِتْلَافِ مَالِ الْغَيْرِ (أَوْ لِحَقِّ الشَّرْعِ) كَشُرْبِ الْخَمْرِ وَالزِّنَا۔

فالانسان لا یکون راضیا عادة بقتل ابیہ ثم ھذا یلق الھم والحزن بہ فیکون بمنزلة الاکراہ بالحبس ۔۔۔۔۔فکذلک الاکراہ بقتل ابیہ وکذلک التھدید بقتل ذی رحم محرم لان القرابة المتائیدة بالمحرمیة بمنزلة الولادة فی حکم الاحیاء ۔۔۔۔۔۔وفی الستحسان ذلک اکراہ کلہ ولاینفذ شئ من ھذہ التصرات لان حبسابنہ یلحق من الحزن ما یلحق بہ حبس نفسہ اواکثر فالولد اذا کان بارایسعی فی تلخیص ابیہ من السجن وان کان یعلم انہ یحبس وربما یدخل السجن مختاراو یحبس مکان ابیہ لیخرج ابوہ فکما ان التھدید بالحبس فی حقہ یعدتمام الرضا فکذلک التھدیدبحبس ابیہ ۔ (فی المبسوط :٢٤\١٤٣)

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ: ٢٢صفر ١٤٤٠ھ

عیسوی تاریخ:١نومبر ٢٠١٨ع

تصحیح وتصویب: مفتی انس عبدالرحیم 

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں