زکوٰۃ کے پیسے سے نابالغ بچے کی مدد کرنا

سوال:نابالغ بچوں کی زکوٰۃ کے پیسوں سے مدد ہوسکتی ہے؟ جیسے کھانے پینے کی چیزوں یا کپڑے وغیرہ۔

الجواب باسم ملھم الصواب

بطور تمہید تین باتیں ذکر کی جارہی ہیں:

1.نابالغ بچے کے مستحقِ زکوۃ ہونے یا نہ ہونے میں جس طرح خود بچے کے صاحبِ نصاب ہونے یا نہ ہونے کا اعتبار ہوتا ہے، اسی طرح اس کے والد کے بھی صاحبِ نصاب ہونے یا نہ ہونے کا اعتبار ہوتا ہے۔ اس لیے مالدار شخص کے نابالغ بچے کو زکوۃ دینا جائز نہیں، اگرچہ بچہ خود صاحبِ نصاب نہ ہو۔ البتہ اگر والد مستحقِ زکوۃ ہو اور بچہ خود بھی صاحبِ نصاب نہ ہو تو پھر اسے زکوۃ دی جاسکتی ہے۔

2. زکوٰۃ کی ادائی کے لیے ضروری ہےکہ زکوٰۃ کی رقم یا اشیا مستحق شخص کو مالک بنا کر دی جائیں۔

3.جس بچے کو زکوٰۃ دی جارہی ہے وہ سمجھ دار ہواور اچھےبُرے میں تمیز کرسکتا ہو۔

لہذا مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں اگر نابالغ بچے مستحقِ زکوٰۃ ہونے کے ساتھ سمجھ دار بھی ہیں اور انہیں زکوٰۃ کے پیسوں سے کھانے پینے کی چیزیں اور کپڑے وغیرہ مالکانہ طور پر دیے جائیں تو زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔

(و) لا إلی (طفله) بخلاف ولدہ الکبیر وأبیه وامرأته الفقراء وطفل الغنیة فیجوز لانتفاء المانع.(قولہ: ولا إلی طفله) أی الغنی فیصرف إلی البالغ ولو ذکرا صحیحا قہستانی، فأفاد أن المراد بالطفل غیر البالغ ذکرا کان أو أنثی فی عیال أبیه أولا علی الأصح لما عندہ أنه یعد غنیا بغناہ نہر”.

( الدر المختار مع رد المحتار : ۳۵۰/۲، ط: دار الفکر، بیروت )

“إذا کان یعول یتیماً و یجعل ما یکسوہ و یطعمه من الزکوٰۃ ماله فی الکسوۃ لا شك فی الجواز لوجود الرکن وھو التملیك، واما الطعام فما یدفعه الیه بیدہ یجوز ایضاً لما قلنا بخلاف ما یأ کله بلا دفعٍ الیه”.

(رد المحتار: 172/3)

فی الھندیة:

“فلو اطعم یتیما ناویا الزکوة لا يجزيه إلا إذا رفع الیه المطعوم لأنه بالدفع إليه بنية الزكوة يملكه فيصير آكلا من ملكه.

في رد المختار تحت (قوله إلا إذا رفع اليه المطعوم) لإنه بالرفع اليه بنية الزكاة يملكه فيصير آكلا من ملكه”.

اھ(ج ٢:ص٢٥٧)

في الهندية: “ولو قبض الصغير وهو المراهق جاز وكذا لو كان يعقل القبض بأن لا يرمي ولا يخدع عنه”. اھ (ج١:ص١٩٠)

فقط-واللہ تعالی اعلم بالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں