حضرت عمران رحمہ اللہ علیہ

آل عمران : قرآن مں ایک جگہ سورۃ اٰل عمران کی آیت 33 میں اٰل عمران کاذکرملتاہے۔

إِنَّ اللَّـهَ اصْطَفَىٰ آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ ﴿٣٣﴾

عمرا ن نام کی دوشخصیتیں گزری ہیں ۔

  • حضرت موسیٰ علیہ السلام کےوالدماجد عمران بن یصہر۔
  • دوسرے ان کےکئی صدی بعدحضرت مریم ؒکےوالد عمران ن ماثان ؒ ۔

حسن بصری ؒ اوروہب ؒکے قول کےمطابق اٰل عمران کی 37 ویں آیت میں عمران بن ماثان ؒ ہی مرادہے ۔

دونوں عمرانوں کےدرمیان ایک ہزارآٹھ سوسال کافاصلہ ہے۔حضرت  مریم ؑکےوالدکاسلسلہ نسب اس طرح ہے ۔

حضرت مریم بنت عمران بن ماثان بن یہوڈابن یعقوب بن اسحٰق بن ابراہیم ؑ

 ( تفسیرجلالین ،جلال الدین سیوطی ،آل عمران31)

پیدائش :100ق م یروشلم

وفات : یروشلم  (ویکیپیڈیا)

تمام علماء کااتفاق ہے کہ حضرت عمران حضرت سلیمان ؑ کی اولادمیں سے ہیں ۔ (البدایہ والنہایۃ ج 2ص 56)

مسیحی روایات : ۔ مسیحیت  کےمطابق مسیح حضرت مریم کےوالدکانام” یہویاقیم بتاتے ہیں اوران کانام عمران ہونے کاانکارکرتےہیں ۔ان کایہ اعتراض کہ قرآن میں حضرت ہارون ؑاورحضرت موسیٰ ؑکی بہن مریم کی وجہ سے “عمران ” کانام غلطی سےاستعمال کیاگیاہے۔کیونکہ قرآن اور بائبل کےمطابق مریم ، ہارون ؑ ،موسیٰ ؑ کےوالدکانام بھی عمران تھا۔

حضرت عمران ؒ :۔ حضرت زکریاعلیہ السلا م کاعہدمبارک ہے،خاندان بنوماثان بنی اسرائیل سرداروں ، بادشاہوں اورعلماء کاخاندان تھا۔ حضرت سیدنا عمران بن ماثان ؒ اسی عالی رتبہ خاندان کےچشم وچراغ  تھے۔ بہت متقی  وپرہیزگار اورصالح مردتھے ۔ حضرت سیدنا زکریاؑ ے ہم زلف بھی تھے یعنی ان کی زوجہ محترمہ حضرت زکریاؑ کی زوجہ محترمہ کی بہن تھیں ۔

حضرت عمران ؒ کی زہد وعبادت کی وجہ سے آپ ؒ مسجدبیت المقدسکےامام بھی تھے اوربنی اسرائیل  میں بہت زیادہ محبوب ومقبول تھے ۔

شادی کوعرصہ درازگزرچکاتھامگراولاد کی نعمت سےمحروم تھے چونکہ صالحین میں سےتھے اس لیے حرف شکایت کبھی زبان پرنہ لائے یہاں تک کہ عمرکےاس حصے کوپہنچ گئے  جب اواد کی امیدختم ہوجاتی ہے لیکن اللہ کی رحمت سے ناامیدنہ ہوئے ۔

حضرت حنہ،حضرت عمران کی زوجہ اورحضرت مریم ؒ کی والدہ :

حضرت حنہ بنت فاقوذبن قبیل حضرت داؤدعلیہ السلام کی نسل ہیں ۔ (البدایۃ والنہایۃ ج 2ص56)

آپ اورآپ کے شوہرحضرت عمران دونوں بنی اسرائیل میں پارسا، عابدہ اوراپنی نیکی کی وجہ سےمشہورتھے ۔

کیونکہ آپ صاحب اولادنہ تھی اس لیے اولاد کی بہت زیادہ متنی تھیں اس لیے بارگاہ الٰہی میں ہروقت دست بدعارہتیں اورقبولیت  دعاکےلیے ہروقت منتظر رہتی تھیں ۔

کہتےہیں ایک مرتبہ حنہ صحن میں چہل قدمی کررہی تھیں،دیکھاکہ ایک پرندہ اپنے بچے کےمنہ میں نہایت محبت سےکھاناڈال رہاہے ہے یہ دیکھ کران کے دل میں بچے کی خواہش اورتمنا نےجوش مارا اوربارگاہ الٰہی میں دعاکےلیے ہاتھ اٹھادیے ۔

آخر بےقراردل سےنکلی دعارب کی بارگاہ میں شرف  قبولیت سےسرفراز ہوئی اورحمل ٹھہرگیا۔

إِذْ قَالَتِ امْرَأَتُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴿٣٥

انبیاء  سابقین کی شریعت میں ایک طریقہ عبادت کایہ بھی ہے کہ اپنی اولاد میں سے کسی بچےکواللہ کےلیے مخصوص کردیں ۔حضرت مریم ؑ کی والدہ نے اسی قاعدہ کےمطابق یہ نذرفرمانی کہ اگراللہ انہیں نرینہ اولادعطافرمائے تواپنےبیٹےکو بیت المقدس کی خدمت  کےلیے وقف کردیں گی ،مگرجب  لڑکی پیداہوئی  تویہ خیال کرکےافسوس کیاکہ لڑکی تویہ کام نہیں کرسکتی مگرحق تعالیٰ  نےان کے اخلاص کی برکت سے اس لڑکی ہی کوقبول فرمالیا اوراس کی شان ساری دنیاکی لڑکیوں سےممتازکردی ۔حضرت حنہ جب حاملہ تھیں توان کےشوہر حضرت عمران انتقال فرماگئے۔

حضرت حنہ  نےاس لڑکی کانام مریم رکھا،سریانی میں اسی کےمعنی “خادمہ” کےہیں۔پھرحضرت حنہ نے اپنی بیٹی اوران کی اولادکےلیے اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں دینےاورشیطان مردودسےپناہ کی دعامانگی ۔

( سورۃ آلعمران 36)

حضرت مریم ؑ(عیسیٰؑ ابن مریم) کی والدہ آپ ؒ کولےکرمسجدبیت المقدس پہنچی اوروہاں کےمجاہدین اعابدین سے جن میں حضرت زکریاؑبھی تھے،جاکرکہااس لڑکی کومیں نے خاص خداکےلیےماناہے اس لیے یہاں لائی ہوں ۔

یہ بچی چونکہ ان کے امام وپیشواکی بیٹھی تھی لہذا ہرشخص ان کوپالنےاورلینےکی خواہش  رکھتاتھا،حضرت زکریاؑنے اپنی ترجیح  کی یہ وجہ بتائی کہ وہ ان کےخالوہیں اورخالہ توماں کی جگہ ہوتی ہے،مگرلوگ اس بات پرراضی نہ ہوئے ۔آخر قرعہ اندازی پراتفاق قرارپایا۔

قرعہ اندازی کا طریقہ :

بعض روایات بنی اسرائیل تین مرتبہ قرعہ اندازی  کی گئی وہ دریامیں اپنےقلم ڈالتے مگرقرعہ کی شرط کےمطابق ہرمرتبہ حضرت زکریاؑ ہی کانام نکلتا،آخرکاہنوں نے حضرت زکریاؑکے ساتھ تائیدغیبی دیکھ کربخوشی اس فیصلے کےسامنے سرتسلیم خم کردیا۔اسی طرح حضرت مریم ؑ کی کفالت آپ ؑکےسپردکردی گئی ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں