ہمارے ٹی وی اینکرز کا طرزعمل

ازقلم: مولانا زاہدالراشدی صاحب 

رمضان المبارک کے دوران (۱۲ سے ۱۶ رمضان ) پانچ دن کراچی میں گزارنے کا موقع ملا۔ ماہ مقدس میں مختلف ٹی وی چینلز کی خصوصی نشریات میں سے جناب انیق احمد کا سنجیدہ اور با مقصد پروگرام ’’روح رمضان‘‘ اس سفر کا باعث بنا۔ میں عام طور پر ٹی وی پروگراموں سے گریز کرتا ہوں اور دعوت کے باوجود معذرت کر دیتا ہوں جس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے بہت سے اینکرز کی یہ پالیسی اور طریق کار ہے کہ وہ اپنے مہمانوں کو بات کہنے کا موقع دینے کی بجائے ان سے اپنی بات کہلوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور خاص طور پر مذہبی راہ نماؤں کے بارے میں تو یہ بات طے شدہ ہے کہ مذہب کی نمائندگی کے لیے چن چن کر ایسے حضرات کو سامنے لایا جاتا ہے اور ان سے بعض باتیں حیلے بہانے سے اس انداز سے کہلوائی جاتی ہیں کہ مذہب کے نام پر کوئی ڈھنگ کی بات پیش نہ ہو سکے۔اور جو بات بھی ہو وہ مذہب اور مذہبی اقدار پر عوامی یقین و اعتماد کو کمزور کرنے کا ذریعہ بن جائے۔ یہ بہت اوپر کی سطح پر طے شدہ پالیسی ہے اور اس ماحول میں اگر کوئی سنجیدہ شخص اپنی بات کہنے کی کوشش بھی کرے تو اسے زبردستی کرنا پڑتی ہے۔ میں خود ایسے متعدد مراحل سے گزر چکا ہوں جن میں سے چند کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے۔ 

نائن الیون کے بعد جب افغانستان کی طالبان حکومت سے امریکہ یہ مطالبہ کر رہا تھا کہ نائن الیون کے سانحہ میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کی وجہ سے اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالہ کر دیا جائے جس پر طالبان یہ کہہ رہے تھے کہ اگر کسی مسلمہ بین الاقوامی فورم پر یہ الزام ثابت کر دیا جائے تو وہ یہ مطالبہ پورا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس دوران لندن کے ایک ٹی وی کی دعوت پر میں ایک پروگرام میں شریک ہوا۔ محترم لارڈ نذیر احمد بھی اس کے شرکاء میں سے تھے۔ بعض دانش ور حضرات یہ کہہ رہے تھے کہ جب امریکہ اسامہ کو ملزم سمجھتا ہے اور حوالگی کا مطالبہ کر رہا ہے تو طالبان حکومت کو یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے۔ جبکہ میرا موقف یہ تھا کہ طالبان حکومت کا یہ موقف بے وزن نہیں ہے کہ محض الزام پر وہ ایسا نہیں کریں گے جب تک کسی مسلمہ بین الاقوامی فورم پر اس کے ثبوت فراہم نہ کر دیے جائیں۔ پروگرام اردو زبان میں تھا اور لائیو تھا۔ ہم سب اردو میں بات کر رہے تھے لیکن میں نے جوں ہی یہ بات زور دے کر کہی کہ امریکہ اس کیس میں مدعی ہے یا جج کی حیثیت بھی اسی کو حاصل ہے؟ تو پروگرام کا ماحول یکلخت تبدیل ہوگیا، گفتگو انگریزی میں ہونے لگی، اور میں انگریزی زبان سے نابلد ہونے کی وجہ سے خاموش تماشائی بن کر رہ گیا۔ 

اسی طرح ایک بار مجھے اسلام آباد میں پی ٹی وی کے ایک پروگرام میں کسی موضوع پر گفتگو کے لیے بلایا گیا۔ میزبان ایک معروف صحافی تھے جو وفات پا چکے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں۔ انہوں نے پروگرام کا آغاز کیا اور میرا مختصر تعارف کرانے کے بعد گفتگو شروع کر دی۔ گفتگو زیادہ تر علماء کرام کے طرز عمل پر تنقید کے حوالہ سے تھی، وہ مسلسل گفتگو کرتے چلے گئے، میں خاموش بیٹھا سن رہا تھا، جب پروگرام کا طے شدہ وقت ختم ہونے کے قریب پہنچا تو میں نے مجبورًا مداخلت کی اور کہا کہ محترم! آپ نے مجھے اس موضوع پر گفتگو کرنے کے لیے بلایا ہے یا اپنی تقریر سنانے کے لیے؟ یہ تو میں کسی جگہ بھی ٹی وی سیٹ کے سامنے بیٹھ کر سن سکتا تھا، اس پر وہ مجھے موقع دینے پر مجبور ہوئے اور میں بمشکل چند منٹ گفتگو کر پایا۔ 

تیسرا واقعہ اس سے بھی دلچسپ ہے۔ چند سال قبل میں اپنے بعض تعلیمی پروگراموں کے لیے کراچی میں تھا، ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل کی طرف سے دعوت ملی کہ ’’اسلامائزیشن کے لیے ہوم ورک‘‘ کے حوالہ سے ایک پروگرام ہو رہا ہے، کیا آپ اس میں شریک ہوں گے؟ موضوع میری دلچسپی کا تھا اس لیے میں نے ہاں کر دی۔ جب پروگرام میں پہنچاتو گفتگو کے لیے چند دیگر حضرات بھی موجود تھے۔ میزبان نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کم و بیش طنزیہ لہجے میں سوال داغ دیا کہ آپ علماء کرام کے پاس نفاذ اسلام کے لیے کوئی ہوم ورک بھی موجود ہے یا ویسے ہی نعرے لگاتے چلے جا رہے ہیں؟ یہ کہہ کر انہوں نے سوال کا رخ ایک مولانا صاحب کی طرف کر دیا جن سے میں متعارف نہیں تھا لیکن مجھے اتنا اندازہ تھا کہ ان کی اس موضوع پر تیاری نہیں ہے، یا اس موضوع پر وہ مدلل گفتگو نہیں کر سکیں گے۔ میں ساری تکنیک سمجھ گیا کہ اس سوال پر نامکمل اور مبہم جواب ہی اینکر صاحب کی ضرورت ہے جس کے لیے یہ شریف سے مولانا صاحب قابو کیے گئے ہیں۔ جبکہ اس سوال و جواب کے موقع پر میری موجودگی دکھانا بھی پروگرام والوں کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ 

میں نے مداخلت کی اور کہا کہ اس سوال کا جواب میں دوں گا۔ میزبان نے کہا کہ نہیں مولانا آپ سے ہم کچھ اور سوال کریں گے اور اس سوال کا جواب یہ مولانا صاحب ارشاد فرمائیں گے۔ میں اس پر ڈٹ گیا کہ نہیں اس سوال کا جواب تو میں ہی دوں گا۔ میرا اصرار اور ان کا انکار چند لمحے جاری رہا، بہرحال انہیں ہتھیار ڈالنا پڑے اور میں نے وضاحت کی کہ اسلامائزیشن کے لیے ہمارے پاس اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں کے ساتھ ساتھ تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء کرام کی متعدد اجتماعی علمی و فقہی کاوشوں کی صورت میں اس قدر مکمل اور جامع ہوم ورک موجود ہے کہ دنیا کا کوئی بھی مسلم ملک نفاذ اسلام کے لیے اس سے استفادہ کر سکتا ہے۔ 

یہ چند ذاتی واقعات اس لیے عرض کیے ہیں کہ میں ٹی وی چینلز کے پروگراموں میں شریک ہونے سے عام طور پر گریز کرتا ہوں۔ البتہ انیق صاحب کا پروگرام چونکہ سنجیدہ اور بامقصد ہوتا ہے اس لیے اس میں شریک ہونے کے لیے مصروفیات میں سے ہر سال وقت نکالنا پڑتا ہے۔ چنانچہ اس رمضان المبارک میں بھی تین دن کے دوران سحری اور افطاری کے چھ پروگراموں میں شریک ہوا اور مختلف دینی عنوانات پر کچھ معروضات پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوگئی۔ 

اس سفر میں جامعۃ الرشید، جامعہ بنوریہ اور ملیر کینٹ کی مسجد توحید کی کچھ مجالس میں شرکت کا موقع بھی ملا جس کی تفصیل اگلے کسی کالم میں پیش کی جائے گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں