گیارہویں کا کھانا اور کھیر کا حکم

سوال: 11وی کا کھانا کھیر وغیرہ جو بریلوی حضرات بھیجتے ہیں، اس کے بارے میں کیا حکم ہے کھانا چاہئے یا نہیں؟

دوم یہ کہ جو عام حالات میں یہ حضرات ایصال ثواب وغیرہ کے بعد کھانا پکاتے ہیں، اور گھروں میں بھیجتے ہیں، اس کے کھانے کا کیا حکم ہے؟

 
جواب:(فتوى: 261/م=258/م)
گیارہویں مروجہ بدعت ناجائز ہے لقولہ علیہ السلام من أحدث في أمرنا ھذا ما لیس منہ فھو ردّ (مشکوٰة) گیارہویں میں پیران پیر شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کے نام نذر و نیاز کی جاتی ہے، اور کسی بزرگ کے لیے نذر ماننا حرام اور شرک ہے، لہٰذا گیارہویں کا کھانا اور پینا ناجائز ہے: اعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یوٴخذ من الدراھم والشمع والزیت ونحوھا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربًا إلیھم فھو باطل حرام الخ (در مختار) ہاں البتہ خداوند تعالیٰ کے لیے نذر ماننا اور اس کا ثواب کسی بزرگ کو پہنچانا درست ہے اور یہ کھانا فقراء و محتاجوں کا ہے۔ اسی طرح نفس ایصالِ ثواب بغیر التزام تاریخ و ہیئت غیر ثابتہ کے شرعاًدرست ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
آپ کے مسائل اور ان کا حل
غیراللہ کے نام جو نیاز دی جاتی ہے، اگر اس سے مقصود اس بزرگ کی رُوح کو ایصالِ ثواب ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے جو صدقہ کیا جائے اس کا ثواب اس بزرگ کو بخش دینا مقصود ہو، تو یہ صورت تو جائز ہے، اور اگر محض اس بزرگ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اس کے نام کی نذر نیاز دی جائے تاکہ وہ خوش ہوکر ہمارے کام بنائے، تو یہ ناجائز اور شرک ہے۔
—————
گیارہویں شریف اور اس کے کھانے کا حکم
حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں:
”غر یبوں کو کھانا کھلانا،اور قراء تِ قرآن کے ذریعے مُردوں کو ثواب پہنچانے کو کسی نے منع نہیں کیا،اس باب میں جو منع ہے تو (وہ)اس طرح مخصوص ہےئت سے ایصال(ثواب کرنے)کو منع کرتے ہیں،جس میں تشبہ بکفّار لازم آجاوے،یا تقییدِمطلق کی آجاوے کہ یہ دونوں (امور؛ تشبہ بالکفار اورمطلق کو مقید کرنا لازم آئے؛ کیوں کہ)تمام امت کے نزدیک (یہ دونوں باتیں) حرام وبدعت ہیں۔(البراہین القاطعہ:۱۷)
حضرت مفتی کفایت اللہ دہلوی فرماتے ہیں:
گیارہویں کی نیاز سے اگر مقصود ایصال ِ ثواب ہے تو، اس کے لیے گیارہویں تاریخ کی تعیین شرعی نہیں ۔ نیز حضرت غوث الاعظم کی(کوئی) تخصیص نہیں۔تمام اولیاء ِکرام اور صحابہٴ عظام اس کے مستحق ہیں ۔ سال کے جن دنوں میں میسر ہو اور جو کچھ میسر ہو، اور جو کچھ صدقہ کر دیا جائے ، اور اس کا ثواب بزرگان ِ دین اور اموات ِ مسلمین کو بخش دیا جائے ۔ فقراء اس کھانے کو کھا سکتے ہیں ، امراء اور صاحب ِ نصاب نہیں کھا سکتے؛ کیوں کہ یہ ایصال ِ ثواب کے لیے بطور ِ صدقہ ہے ۔( کفایت المفتی : ۱ / ۱۶۶)
مولانااحمد رضا خاں صاحب بھی اسی کے قائل ہیں:
جو عامی شخص اس تعیینِ عادی کو توقیتِ شرعی جانے اور گمان کرے کہ ان کے علاوہ دنوں میں ایصالِ ثواب ہوگا ہی نہیں،یا جائز نہیں،یا ان ایام میں ثواب دیگر ایام سے زیادہ کامل ووافر ہے،تو بلا شبہ وہ شخص غلط کار اور جاہل ہے اور اس گمان میں خطاکار اور صاحبِ باطل ہے۔(فتاویٰ رضویہ جدید:۹/۹۵۱)
واللہ اعلم بالصواب

 
 
 

اپنا تبصرہ بھیجیں