بارہ ربیع الاول کے موقع پر گھروں کوسجانے کا حکم

سوال: بارہ ربیع الاول کے موقع پرگھروں کو سجانا لائٹنگ کرنااور دوسری خرافات کرنا کیا یہ حدیث سے ثابت ہے؟

فتویٰ نمبر:355

جواب:اصطلاحِ شریعت میں بدعت ہرایسے نوایجاد طریقۂ عبادت کوکہتے ہیں جوثواب حاصل کرنے کے لئے رسول اللہ ﷺ اور خلفاءِ راشدینرضی اللہ عنہم کےبعد اختیارکیاگیاہواور صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم کےعہدِ مبارک میں باوجوداس کاسبب اورداعیہ موجودہونےکے نہ وہ طریقہ قولاً ثابت ہو، نہ فعلاً، نہ صراحتاً، نہ اشارۃ۔(مأخذہٗ سنت وبدعت :جواہرالفقہ جدیدجلداول ص 458)

اس تعریف سےمعلوم ہواکہ شرعاًجس چیز کوبدعت کہاجاتاہے اس کی کوئی تقسیم نہیں بلکہ جونوایجاد طریقے بدعت کی اس تعریف میں داخل ہیں انہیں شرعاً بدعت کہاجائیگااور وہ “کل بدعۃ ضلالۃ”کے زمرے میں داخل ہوکر گمراہانہ اورناجائزہیں، ان سے بچناضروری ہے۔البتہ لغت میں چونکہ ہرنئی چیزکوبدعت کہاجاتاہے اس اعتبار سے بعض ایسی چیزوں کو بدعتِ حسنہ کہہ دیتے ہیں جو صریح طورپر آنحضرت ﷺاورحضرات خلفاءِراشدین رضی اللہ عنہم کے عہدِ مبارک میں نہ تھیں بعد میں کسی ضرورت کےپیشِ نظر ان کواختیارکیاگیاجیسے آجکل کے مدارسِ اسلامیہ میں پڑھائے جانے والےعلوم وفنون کہ اصل تعلیم اوردرس وتدریس کی بنیاد توآنحضرت ﷺ سے ثابت ہے لیکن مدارس کاقیام اور ان میں جس طرح تعلیم دی جاتی ہے آنحضرت ﷺاور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کےعہدمیں اس کی ضرورت نہ تھی لہٰذا آج اگر ضرورت کےپیشِ نظر ان کو اختیارکرلیاجائے تو اصطلاحی بدعت میں تو شمار نہیں ہونگےلیکن لغوی معنیٰ کےاعتبار سے اگران کوبدعت کہدیں تو بدعتِ حسنہ ہی کہیں گے۔اسی طرح قرآن پاک پراعراب لگانے کی مثال ہے چونکہ اہل عرب میں ابتداءً اعراب بلکہ نقطے لگانے کا بھی رواج نہیں تھا لکھنےوالاخالی حروف لکھنے پراکتفاء کرتاتھااور پڑھنےوالے اس طرز کے اتنے عادی تھےکہ انہیں بغیراعراب اور نقطوں کی تحریرپڑھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی تھی اس لئے نبیٔ کریم ﷺکے عہد میں قرآنِ کریم پراعراب لگانے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ لیکن جب اسلام عجمی ممالک میں پھیلااورعجمی اور کم پڑھے لکھے مسلمانوں کو قراءت میں دشواری ہونے لگی بلکہ قراءت میں غلطیاں ہونے لگیں تواس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ قرآن پاک پراعراب لگائے جائیں اس لئے قرآنِ کریم پراعراب لگائے گئے توظاہرہے کہ یہ اصطلاحی اور حقیقی بدعت نہیں ہےکیونکہ عہدِرسالت میں اس کاداعیہ موجود نہیں تھالہٰذا اس پرمذکورہ تعریف صادق نہیں آتی لیکن لغوی معنیٰ کےاعتبار سے اگراس کوبدعت کہدیں تو بدعتِ حسنہ ہی کہیں گے۔
اب معاملہ ہے مروجہ عید میلاد النبی ﷺ کا تو اس سلسلہ میں عرض ہے کہ نبی کریم ﷺ کا ذکرِ مبارک میں سراسر خیر ہی خیر ہے اور بڑی مبارک ہیں وہ زبانیں جن پر ذکرِ مصطفیﷺ ہوتا ہے اور بڑے مبارک ہیں وہ لوگ جو اس ذکر کا اہتمام کرتے ہیں،لیکن سوال یہ ہے کہ جس طرح آج کل یہ میلاد کا طریقہ جاری ہے تو خود دل پر ہاتھ رکھ کر سوچنا چاہئے کہ کیا اس طریقہ سے نبی کریمﷺ خوش ہوں گے یا نہیں؟ان بابرکت محفلوں میں جو خرافات آگھسی ہیں کیا ان خرافات کو ہم حسنہ کہہ سکتے ہیں؟
نیز ہم سے زیادہ قرآن کو سمجھنے والے اور اس پر عمل کرنے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے،تو کیوں انہوں نے اس طریقہ کو اختیار نہیں کیا؟
بات یہ ہے کہ اس بابرکت ذکر کواس بابرکت محفل کو،اس بابرکت کام کو جس انداز سے کیا جارہاہے اس سے یہ خدشہ ہوگیا ہے کہ کہیں یہ عمل اس خد تک نہ ہوجائے کہ لوگ اس کو بھی کرسمس ڈے کی طرح ایک ایونٹ سمھنے لگ جائیں،جس میں صرف لوگوں کو ذکرِ مصطفیٰﷺ سے زیادہ عام تعطیل،مرغن کھانوں اور نئے کپڑے سلوانے کا انتظار ہو اور باقی رہی یہ اس محفل کا انعقاد تو رات 12 بجے کے بعد بجلی کی چوری کے اندر،اسپیکروں اور ایکو ساؤنڈ کی مدد لے کر بچوں،بوڑھوں،بیماروں تہجد گزاروں بلکہ عام لوگوں کی نیندیں خراب کرکے کیا جارہا ہے اور اس کو باعثِ ثواب اور نہ کرنے والوں کو شیطان سے تشبیہ دی جارہے اگر چہ وہ رات کی تنہائی میں اللہ کا نام لیتا ہو اور اس کے حبیب ﷺ پر کثرت سے درود پڑھتا ہو۔
واللہ اعلم بالصواب
 

اپنا تبصرہ بھیجیں