دوآدمیوں کااس طرح کاروبارمیں شریک ہوناکہ نفع ونقصان دونوں میں شرکت ہوتواسکی صورت کیاہے

فتویٰ نمبر:493

سوال:زید اوربکرمندرجہ ذیل طریقےسےکام کرناچاہتےہیں:

(۱) مال کسی بھی غیرملک سےخریداجائےگا،مثلاًامریکہ

(۲) مال کاآرڈرزید اپنی ضرورت کےمطابق دیں گے،

(۳) مال کے مالیت کی  %60رقم زید فراہم کریں گےاور%40بکر،

(۴) مال امریکہ  یاکسی دوسرےملک  سےکراچی تک منگانابکرکی ذمہ داری ہوگی،

(۵) مال کراچی پہنچتےہی بکر،زیدکومال دےدیں گے،

(۶) مال ملنےکےایک دودن کےاندرزید بکرکی اصل رقم معہ منافع کےلوٹادیں گے،

(۷) مال مارکیٹ میں نفع ونقصان پربیچنازیدکی صوابدید پرہوگا،

            بکرکی شراکت مال کےکراچی پہنچنےاورزیدکودےدینےکےبعدختم ہوجائےگی ، لہذا نفع ونقصان میں بکرکےحصےکاکس طرح تعیین کیاجائے؟مال بکس کی صورت میں پیک ہوگا، مثلاً6لاکھ کےمال میں تقریباً600بکس آئیں گے،کیابکرکامنافع فی بکس کےحساب سےطے کیاجاسکتاہے؟   

الجواب حامدا   ومصلیا

            واضح رہےکہ شرکت اورپاٹنرشپ کامعاملہ شرعاًاس شرط کےساتھ جائزہےکہ اس  میں ہر شریک نفع اورنقصان دونوں میں شریک ہو،

            اگرکسی ایک طرف سےصرف حصول ِنفع کی شراکت ہواور اوّل تاآخروہ شریک  نقصان  میں شراکت کوقبول نہ کرےتوایساکرناعقدِ شرکت کےمنافی ہےاورناجائزہے، (۱) اور نفع ونقصان کاعلم اوراعتباراسی وقت ہوگاجب مشترکہ سرمایہ  سےخریداہوامال آگے فروخت کیاجائےاس سےپہلےنفع اورنقصان کاکوئی اعتبارنہیں ۔

جیساکہ فتاوٰی شامی (4/305) میں ہے:

وَذَكَرَ مُحَمَّدٌ كَيْفِيَّةَ كِتَابَتِهِمْ فَقَالَ: هَذَا مَا اشْتَرَكَ عَلَيْهِ فُلَانٌ وَفُلَانٌ اشْتَرَكَا عَلَى تَقْوَى اللَّهِ تَعَالَى وَأَدَاءِ الْأَمَانَةِ ثُمَّ يُبَيِّنُ قَدْرَ رَأْسِ مَالِ كُلٍّ مِنْهُمَا وَيَقُولُ ذَلِكَ كُلَّهُ فِي أَيِّهِمَا يَشْتَرِيَانِ بِهِ وَيَبِيعَانِ جَمِيعًا وَشَتَّى وَيَعْمَلُ كُلٌّ مِنْهُمَا بِرَأْيِهِ وَيَبِيعُ بِالنَّقْدِ وَالنَّسِيئَةِ، وَهَذَا وَإِنْ مَلَكَهُ كُلٌّ بِمُطْلَقِ عَقْدِ الشَّرِكَةِ إلَّا أَنَّ بَعْضَ الْعُلَمَاءِ يَقُولُ لَا يَمْلِكُهُ إلَّا بِالتَّصْرِيحِ بِه

            لہذاصورتِ مسئولہ میں زیداوربکرکاباہم طےشدہ معاملہ شرعاًعقدِ فاسد پرمشتمل ہونےکی بناءپرجائزنہیں ہے۔

            اگراس معاملہ کوزید وبکرشرعی طریقہ کےمطابق کرناچاہتےہیں تواس کاطریقہ یہ ہےکہ زید بکرسےاپنی مطلوبہ رقم  کےبقدرقرض لیکراپنی ضرورت کےمطابق آرڈردیدے اورپھربکرسےعلیحدہ معاملہ طےکرکےمتعلقہ ملک سےمال منگوانےکااس کواجیرمقررکرے اورپھراس کواسکی طےشدہ اجرت دیدے،اوراس سےبمدّ ِقرض لی ہوئی رقم اس کوعلیحدہ لوٹا دے۔

دوسراطریقہ یہ بھی کیاجاسکتاہےکہ زیدوبکردونوں معاملہ شراکت توحتمی طورپر اخیرتک کا ہی کریں اورجب آپس میں معاملہ ختم کرناچاہیں توباہمی رضامندی سےزیدبکر سے مشترکہ سرمایہ سےخریدی گئی اشیاءمیں سےبکرکےحصہ کوقبل ازفروخت ہی منافع کے ساتھ خریدلے۔سائل نےجوطریقہ کاربعنوان گذارش ذکرکیاہےوہ طریقہ بھی شرعاًدرست نہیں ہے۔

التخريج

 (۱)الفتاوى الهندية – (2 / 320)

 وَالْعَمَلُ عَلَى أَحَدِهِمَا إنْ شَرَطَا الرِّبْحَ عَلَى قَدْرِ رُءُوسِ أَمْوَالِهِمَا جَازَ وَيَكُونُ رِبْحُهُ لَهُ وَوَضِيعَتُهُ عَلَيْهِ وَإِنْ شَرَطَا الرِّبْحَ لِلْعَامِلِ أَكْثَرَ مِنْ رَأْسِ مَالِهِ لَمْ يَصِحَّ الشَّرْطُ وَيَكُونُ مَالُ الدَّافِعِ عِنْدَ الْعَامِلِ بِضَاعَةً وَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا رِبْحُ مَالِهِ، كَذَا فِي السِّرَاجِيَّةِ. وَلَوْ شَرَطَا الْعَمَلَ عَلَيْهِمَا جَمِيعًا صَحَّتْ الشَّرِكَةُ، وَإِنْ قَلَّ رَأْسُ مَالِ أَحَدِهِمَا وَكَثُرَ رَأْسُ مَالِ الْآخَرِ وَاشْتَرَطَا الرِّبْحَ بَيْنَهُمَا عَلَى السَّوَاءِ أَوْ عَلَى التَّفَاضُلِ فَإِنَّ الرِّبْحَ بَيْنَهُمَا عَلَى الشَّرْطِ، وَالْوَضِيعَةُ أَبَدًا عَلَى قَدْرِ رُءُوسِ أَمْوَالِهِمَا، كَذَا فِي السِّرَاجِ الْوَهَّاجِ. وَإِنْ عَمِلَ أَحَدُهُمَا وَلَمْ يَعْمَلْ الْآخَرُ بِعُذْرٍ أَوْ بِغَيْرِ عُذْرٍ صَارَ كَعَمَلِهِمَا مَعًا، كَذَا فِي الْمُضْمَرَاتِ. وَلَوْ شَرَطَا كُلَّ الرِّبْحِ لِأَحَدِهِمَا فَإِنَّهُ لَا يَجُوزُ، هَكَذَا فِي النَّهْرِ الْفَائِقِ.

عمدة الرعاية بتحشية شرح الوقاية-لإمام محمد عبد الحي اللكنوي – (6 / 303)

والرِّبحُ في الشَّركةِ الفاسدةِ على قدرِ المال:كما إذا شرطَ في الشَّركةدراهمَ مسمَّاةٍ من الرِّبح لأحدِهما فتفسدُ الشَّركة،فيكونُ الرِّبح بقدرِ الملك، حتى لو كان المالُ نصفينِ وشرطُ الرِّبحُ أثلاثاً، فالشَّرطُ باطل، ويكونُ الرِّبحُ نصفين.

اپنا تبصرہ بھیجیں