دو غیرملکی کرنسیوں کے باہمی تبادلے کی شرائط

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب حامدومصلیاً

صورت مسئولہ میں سائل نے جوصورت ذکرکی ہے ، دراصل یہ ڈالر اور برمی پیسے کی  باہم ادھار خرید وفروخت  سےمتعلق ہے، اور شرعاً غیرملکی کرنسیوں کی آپس میں خرید وفروکت  کے جوازکے لیے درج ذیل تین شرائط کالحاظ رکھنا ضروری ہے۔

  • پہلی شرط یہ ہے کہ جس مجلس میں یہ معاملہ ہو،اسی مجلس میں فریقین میں سے کوئی ایک فریق اپنی کرنسی پرضرور قبضہ کرلے، مثلاً کمپنی  (B) خریدشدہ ڈالروں پرقبضہ کرلے، یا اپنےاکاؤنٹ میں منتقل کرلے، یا ڈالر فروخت کرنے والی کمپنی  (A) برمی کرنسی پر قبضہ  کرلے، غرض یہ ہے کہ کوئی ایک فریق اپنی کرنسی پرضرور قبضہ کرلے، کیونکہ اگر ان میں سے کوئی فریق بھی اپنی  کرنسی پر قبضہ نہیں کرے گا تویہ ”بیع الکالئی بالکالئی “ یعنی ادھار  کی بیع ادھار سے کرنا ہوگی، جوجائزنہیں ۔
  • 2)دوسری شرط یہ ہے کہ جب مختلف ممالک کی کرنسیوں کوایک دوسرے  کے مقابلہ میں ادھار فروخت کیا جائے تواس صورت میں کرنسی  کے مارکیٹ ریٹ زیادہ وصول نہ کیاجائے ۔اگر چہ اصلاً توکرنسی کو مارکیٹ ریٹ سے زیادہ پر بھی فروخت  کرنا جائز ہے لیکن  چونکہ اس کاروبار کوسود حاصل کرنے کا حیلہ بنایا جاسکتا ہے ،اس لیے یہ شرط عائد  کی گئی ہے کہ مارکیٹ ریٹ سے زیادہ پر یہ معاملہ جائز نہیں ہوگا۔ لہذا مذکورہ خرابی سے بچنے کےلیے کمپنی  (B)کے لیے مذکورہ ڈالر بازاری ریٹ سے برمی  سو/۱۰۰ روپے زائد  پرخریدنا جائز نہیں ہوگا۔
  • تیسری شرط یہ ہے کہ اس معاملہ  کی حکومت کی طرف سے قانوناً اجازت ہو۔

اگر مذکورہ بالا شرائط میں سے پہلی دوشرائط  کالحاظ نہ کیا گیا تو یہ معاملہ نا جائز ہوگا اور تیسری شرط نہ پائی جانے کی صورت میں ملکی قانون کی خلاف ورزی  کا گناہ ہوگا ، کیونکہ جوکام  معصیت اور گناہ  نہ ہو،اس میں شرعاً حکومت کی اطاعت واجب ہے ۔واللہ اعلم

بندہ محمد سلمان سکھروی

دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی

۴/ذیقعدہ/1432ھ

الجواب صحیح

بندہ محمود اشرف عثمانی

دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی

۴/ذیقعدہ/1432ھ

عبدالرؤف سکھروی

دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی

۴/ذیقعدہ/1432ھ

عربی حوالہ جات وپی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنےکےلیےلنک پرکلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/permalink/1020295408339704/

اپنا تبصرہ بھیجیں