آئینہ معیشت

امت محمدیہ کی بہنوں کو بے نقاب نہ کیجیئے

اس کے گھر پر قیامت سے پہلے قیامت ٹوٹ پڑی تھی والد صاحب کا انتقال ان کے گھرانے کوسوگوار کرگیا اپنے پیچھے روتی سسکتی بیوہ اور تڑپتی بلکتی بیٹی کو چھوڑ گئے، اے موت تجھے موت ہی آئی ہوتی! مدیحہ تو ابھی ایم بی اے کی طالبہ تھی بوڑھی ماں عمر کے اس حصے میں ہے جہاں سہاروں اور آسروں کی ضرورت ہوتی ہے ایم بی اے کی فیس کہاں سے ادا ہوگی؟

باپ کے جمع کردہ پیسے سے کب تک گزارہ ہوگا؟

بچپن سے پردہ کرنے کی عادت کہیں نوکری بھی نہیں کرنے دیتی۔

مگر خون آشام غربت اور ظلم آشنا افلاس انسان کو اپنے تمام قانون توڑنے پر مجبور کردیتے ہیں، مدیحہ نوکری کی تلاش میں نکل کھڑی ہوئی ضرورت پڑے تو قسمت بھی دغا دے جاتی ہے ایک کے بعد دوسرا دروازہ بند ہوتا گیا مہینوں جوتے چٹخائے، بے انت در کھٹکھٹائے مگر نوکری ملی بھی تو کہاں؟ ایک ملٹی نیشنل فوڈ کمپنی میں، جس کی سب سے پہلی شرط تھی کہ یہاں برقعہ پہن کر نہیں آسکتی۔

دوسری شرط یہ کہ گاہک کے سامنے پینٹ شرٹ پہن کر آنا ہوگا

جی ہاں! آپ کو شاید یقین نہ آئے مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں موجود تمام ملٹی نیشنل کمپنیوں کے فرنچائز میں لڑکی صرف پینٹ شرٹ پہن سکتی ہے مدیحہ ایک بار پھر قسمت سے لڑنے نکل کھڑی ہوئی مگر نوکری روٹھی رہی دل پر پتھر رکھا ماں کو جھوٹا دلاسہ دیا اور اسی کمپنی پہنچ گئی وہ ایک ہفتہ اپنی روایت، عادت اور معاشرت سے دوبدو جنگ لڑتی رہی، گاہک کو دیکھتے ہی اس کی پیشانی عرق آلود ہوجاتی، وہ لمحہ بھر بعد ہوٹل کے نیم تاریک حصوں میں جا کھڑی ہوتی، مگر ایک ہی ہفتہ بعد اسے نوکری سے برطرف کردیا گیا بتایا گیا کہ تم گاہکوں کا سامنا نہیں کرسکتیں تم اچھی کارکردگی نہیں دکھاسکیں تم ہمارے ہوٹل میں کام نہیں کرسکتیں ایک گھر اجڑ گیا مدیحہ ایک بار پھر یتیم ہوگئی۔

پاکستان دنیا کا منفرد ملک ہے، جہاں تمام ملٹی نیشنل کمپنیوں نے یہ قانون بنا رکھا ہے، مشرقی روایات، پاکستانی معاشرت اور دینی اقدار میں سے کسی کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا۔ آپ پاکستان میں موجود کسی بھی ملٹی نیشنل کمپنی کے فرنچائز ہوٹل یا کمپنی کا دورہ کریں، آپ حیران رہ جائیں گے کہ وہاں اکثر ملازم لڑکیاں ہیں اور ان سب کا لباس پینٹ شرٹ ہے، ستم پر ستم یہ کہ ان کمپنیوں کی دیکھا دیکھی پاکستانی سپر اسٹورز، ریسٹورنٹ اور دفاتر میں بھی پینٹ شرٹ پہنی لڑکیاں دکھائی دیتی ہیں۔

سوچنے کی بات ہے کہ خواتین کو پروقار مشرقی شلوار قمیص کے بجائے پینٹ شرٹ پہنانے کا کیا فائدہ ہے؟

کیا برگر بیچنے کے لیے خاتون کا یہ لباس پہننا ضروری ہے؟

کیا شلوار قمیص پہننے اور سر ڈھانپنے کے بعد کام کرنا مشکل ہوجاتا ہے؟

کیا اس لباس کو پہننے سے کام کرنے کی طاقت پیدا ہوجاتی ہے؟

جراثیم سے بچنے کے لیے گلوز پہننا ضروری ہیں گردو غبار سے حفاظت کے لیے ماسک لازمی ہے فوڈ پراسیسنگ یونٹس میں بال گرنے سے بچانے کے لیے سر ڈھانپنا اہم ہے ، مگر خدا کے بندو! یہ تو بتاؤ ، پینٹ شرٹ کس مرض کی دوا ہے؟ ایک امریکی کمپنی نے خواتین کے لیے چست لباس لازمی کردیا تھا۔ اس قانون کے خلاف خواتین نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ،کمپنی سے پوچھا گیا کہ اس لباس سے کمپنی کو کیا فائدہ ہوگا؟

قانون ہار گیا اور خواتین جیت گئیں مگر پاکستان میں بے پردگی فتح کے جھنڈے لہرا رہی ہے اور شکست خوردہ مشرقیت ٹسوے بہا رہی ہے۔

آپ ذرا دوغلا پن ملاحظہ کریں فرانس، ہالینڈ اور بیلجیم میں کوئی مسلمان خاتون پردہ نہیں کرسکتی پردہ کرنے والی خاتون پر تقریباً 19 ہزار روپے جرمانہ عائد کردیا جاتا ہے مگر اسی فرانس میں عیسائی مذہبی خاتون (نن) کے پردہ کرنے پر کوئی پابندی نہیں، جب توہین آمیز خاکے بنتے ہیں تو یہی فرانس کہتا ہے کہ ہم ان خاکوں کو نہیں روک سکتے،کیونکہ یہ مذہبی آزادی کے خلاف ہے، مگر یہی فرانس مسلم خواتین کو پردے سے روک دیتا ہے اور مذہبی رواداری کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیتا ہے  پاکستانی تاجر بھائیوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ کیا کر رہے ہیں انہیں فرنچائز دیتے وقت کوئی کمپنی مجبور نہیں کرتی کہ خواتین کو پینٹ شرٹ پہنائیں ،آخر وہ کیوں پاکستانی معاشرے کو یورپی رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں ایک لمحہ کو تو سوچیے! آگے پیش بھی ہونا ہے۔ (شریعہ اینڈ بزنس)

اپنا تبصرہ بھیجیں