آنکھ کی تکلیف میں روزہ توڑنا۔

سوال: انکھ کا آپریشن ہوا ہے، درد کی وجہ سے روزہ توڑ سکتے ہیں ؟

الجواب باسم ملھم الصواب
اگر روزہ یہ سوچ کر توڑ رہے ہیں کہ آنکھ میں دوائی ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے تو پھر روزہ توڑنا درست نہیں ہے؛ کیوں کہ شرعی طور پر آنکھ میں دوا ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا اگرچہ دوا کا ذائقہ حلق میں محسوس ہو،البتہ اگر دوائی آنکھ میں ڈالنی نہیں،بلکہ کھانے والی ہے اور کھانا بھی ضروری ہے اور روزہ نہ توڑنے کی صورت میں جان کو نقصان پہنچنے یا بیماری بڑھ جانے یا  سخت تکلیف میں پڑجانے کا خطرہ ہو تو ایسی صورت میں روزہ توڑنے کی گنجائش ہوگی۔ روزے کو توڑنے کی صورت میں صرف قضا لازم ہوگی، کفارہ لازم نہیں ہوگا۔
================
حوالہ جات :
1 ۔ ” فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَرِیضًا أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَیَّامٍ أُخَرَ” ۔(البقرة: 158)۔
قال ابن کثیر: أی: المریض والمسافر لا یصومان فی حال المرض والسفر؛ لما فی ذلک من المشقة علیہما، بل یفطران ویقضیان بعدة ذلک من أیام أخر. (تفسیر ابن کثیر: 145/1، دار السلام، ریاض)۔

2 ۔ ” وقد ذكر المصنف منها خمسة، وبقي الإكراه وخوف هلاك أو نقصان عقل ولو بعطش أو جوع شديد ولسعة حية (لمسافر) سفراً شرعياً  ولو بمعصية (أو حامل أو مرضع) أما كانت أو ظئراً على ظاهر (خافت بغلبة الظن على نفسها أو ولدها) وقيده البهنسي تبعاً لابن الكمال بما إذا تعينت للإرضاع (أو مريض خاف الزيادة) لمرضه وصحيح خاف المرض، وخادمة خافت الضعف بغلبة الظن بأمارة أو تجربة أو بأخبار طبيب حاذق مسلم مستور … (الفطر) يوم العذر إلا السفر كما سيجيء، (وقضوا) لزوماً (ما قدروا بلا فدية و) بلا (ولاء)؛ لأنه على التراخي، ولذا جاز التطوع قبله بخلاف قضاء الصلاة”.
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين :(2/ 421)۔

  3 ۔ ” ومن کان مریضًا فی رمضان فخاف إن صام ازداد مرضہ أفطر وقضی” ۔
(التاتارخانیة: 404/3 ، زکریا)۔

4 ۔ ” ولو اقطر شیئا من الدواء فی عینہ لایفطر صومہ عندنا وان وجد طعمہ فی حلقہ ” ۔
(الفتاوی الھندیہ: 203/1 ، زکریا)۔

واللہ اعلم بالصواب۔
1 ربیع الاول 1444
28 ستمبر 2022

اپنا تبصرہ بھیجیں