ادائے زکوٰۃ کی شرط

سوال:ادائے زکوٰۃ کی شرط یعنی نیت کے ذیل میں یہ بات کہ” مال دینے کے بعد اگر وہ مال فقیر کے پاس محفوظ ہو تو زکوہ کی نیت بعد میں بھی کرلی جائے تو ادا ھوجائے گی” سوال یہ ہے کہ

1) مال کے محفوظ ہونے کی قید کا کیا فائدہ ہے؟

2) نیز نیت کے بغیرکسی کام کے کرنے کے بعد اس میں نیت کرنا درست ہے یا نہیں؟

3) تو اگر چور کی چوری کے بعد افسوس کیا

(الف) چور نے توبہ کی اور اسی مال میں زکوٰۃ کی نیت کی اور اس میں سے زکوٰۃ نکالی تو کیا زکوٰۃ ادا ہو جائے گی؟

(ب) مالک نے چوری کے بعد اس مال میں زکوٰۃ کی نیت کی تو کیا زکوٰۃ ادا ہو جائے گی؟

الجواب باسم ملهم الصواب

1. محفوظ کی قید اس لیے لگائی کہ اگر وہ رقم استعمال کرچکاہو تو اب وہ ہلاک شدہ شیء میں زکوۃ کی نیت کرتا ہے،جو درست نہیں۔

2۔ علماء کرام نے آسانی کے پیش نظر زکوٰۃ اور روزہ جیسی عبادت کی نیت بعد میں بھی معتبر مانی ہے،لہذا صاحب نصاب نے فقیر کو مال دیا اور ابھی وہ فقیر کے ہاتھ میں موجود ہو اور دینے والا زکوۃ کی نیت کرلے تو نیت معتبر ہوگی اور زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔

مسئلہ کی نوعیت در اصل یہ ہے کہ “نیت اور منوی(جس کی نیت کی جا رہی ہے) کے درمیان اگر کوئی منافی( نیت و عمل )چیز نہ آئے تو وہ نیت معتبر ہے اور اسی سے وہ عمل ادا ہو جائے گا۔جیسے: کسی نے مسجد کے لیے نکلتے وقت ہی نماز کی نیت کی اور پھر مسجد پہنچنے پر اسی نیت سے نماز ادا کی, اور اس دوران کسی سے کوئی بات چیت وغیرہ نہ کی تو اسی نیت سے اس کی نماز ادا ہو جائے گی۔ الاشباہ میں بھی اس پر مفصل کلام موجود ہے۔

فتاوی شامیہ صفحہ نمبر 262 میں مذکور ہے:

“زکوٰۃ میں نیت کا متصل ہونا حقیقی ہو یا حکمی درست ہے”

حقیقی کا مطلب: یہ کہ ادائے زکوٰۃ کے وقت نیت کرلے ۔

حکمی کا مطلب یہ ہے کسی فقیر کو بغیر نیت زکوٰۃ کی رقم دی پھر نیت کی۔تو اگر مال فقیر کی ملک میں موجود ہے تو نیت کافی ہے ۔اور اگر فقیر نے مال خرچ کر لیا ،اس کے بعد نیت کی تو قابل قبول نہیں۔

3) تاہم چوری کا معاملہ اس مثال سے مختلف ہے،اس سوال کے دو جز ہیں:

(الف)

✒️ چور کا چوری کے مال میں سے زکوٰۃ نکالنا

یہ مال اس چور کا اپنا نہیں ہے کہ وہ اس میں سے زکوۃ نکالے، بلکہ پورا کے پورا اصحاب حقوق پر لوٹائے گا ،کیونکہ جن کا یہ مال ہیں،وہی ان کے مالک ہیں۔اور مالک کو ان کا مال واپس دینا لازم ہے۔

اگر اصحاب حقوق معلوم نہیں ہیں تو اس کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ اس پورے مال کو اصحاب حقوق کی طرف سے بلا نیت ثواب کے صدقہ کرے۔

==================

’’فتاوی شامی‘‘  میں ہے:

“والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه”. (5/99، مَطْلَبٌ فِيمَنْ وَرِثَ مَالًا حَرَامًا، ط: سعید) 

وفیه أیضاً:

“والأصل أن المستحق بجهة إذا وصل إلى المستحق بجهة أخرى اعتبر واصلاً بجهة مستحقة إن وصل إليه من المستحق عليه وإلا فلا.

(قوله: إن المستحق بجهة) كالرد للفساد هنا، فإنه مستحق للبائع على المشتري، ومثله رد المغصوب على المغصوب منه. (قوله:بجهة أخرى) كالهبة ونحوها.

(قوله:وإلا فلا) أي وإن لم يصل من جهة المستحق عليه، بل وصل من جهة غيره فلايعتبر

(ب) چوری ہوے مال پر زکوۃ کی نیت کرنا

کسی کا مال چوری ہو گیا اور اس نے پھر سوچا کہ اسی مال میں زکوٰۃ کی نیت کر دیتا ہوں ہو۔تو مذکورہ طریقے پر زکوة ادا نہیں ہو گی؛وجہ یہ کہ زکوة کی ادائی میں فقیر کو مالک بنانا شرط ہے اور یہاں تملیک نہیں پائی جارہی۔

================

”لایجوز الزکوة الا اذا قبضہا الفقیر او فبضہا من یجوز القبض له لولایته علیه۔(المحیط البرہانی:٢١٤/٣) ویشترط ان یکون الصرف تملیکاً لا اباحة۔(الدر المختار مع الشامی بیروت،٢٦٣/٣) الزکوة یجب فیھا تملیک المال لان الایتاء فی قوله تعالی:{واتوا الزکوة} یقتضی التلیک“۔(تبیین الحقائق: ١١٨/٢، البحر الرائق:٢٠١/٢)

”زکوة کی ادائیگی کے لیے فقیر کو باقاعدہ مالک و قابض بنانا شرط ہے ،تملیک کے بغیر زکوة ادا نہ ہوگی“۔(کتاب المسائل:٢٦٨/٢)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

“”وَلَا يَجُوزُ أَنْ يَبْنِيَ بِالزَّكَاةِ الْمَسْجِدَ، وَكَذَا الْقَنَاطِرُ وَالسِّقَايَاتُ، وَإِصْلَاحُ الطَّرَقَاتِ، وَكَرْيُ الْأَنْهَارِ وَالْحَجُّ وَالْجِهَادُ وَكُلُّ مَا لَا تَمْلِيكَ فِيهِ، وَلَا يَجُوزُ أَنْ يُكَفَّنَ بِهَا مَيِّتٌ، وَلَا يُقْضَى بِهَا دَيْنُ الْمَيِّتِ كَذَا فِي التَّبْيِينِ”

و اللہ سبحانہ اعلم

اپنا تبصرہ بھیجیں