اگرالائنس کمپنی میں کچھ رقم کاروبارکیلئےجمع کروائی جائےاور وہ کمپنی پھربندہوجائےاوررقم بھی مل جائےتواس صورت میں زکوٰۃ کیسےدیں

فتویٰ نمبر:492

 سوال:الائنس کمپنی میں تقریباًسترہ اٹھارہ سال پہلے50 ہزارروپےنفع و نقصان کی بنیادپرکاروبارمیں جمع کروائےتھے،شروع کےتین یاچارمہینےانہوں نےنفع بھجوایا پھرکمپنی سیل ہوگئی شروع شروع میں تومیں نےزکوٰۃ دی لیکن پھرکمپنی سیل ہونےکی وجہ سےیہ سوچ کرصبرکرلیاکہ اللہ کی طرف سےنقصان ہوناتھاہوگیا لیکن اس کمپنی کامقدمہ چل رہاتھاجواب ختم ہواہے توانہوں نےسب (حصہ داروں) کوانکی  کل جمع کروائی گئی رقم کا چوتھاحصہ کل 14/2/2005کواداکیاہے،مجھے50ہزارکےبدلےساڑھےبارہ ہزار روپےادا کئےہیں

اب مسئلہ یہ معلوم کرناہےکہ ان گذشتہ سالوں تقریباًسولہ سترہ سال کی زکوٰۃ کتنی ادا کروں ؟ ہرزکوٰۃ 50ہزارروپےپراداکرنی ہوگی یاساڑھےبارہ ہزارروپےپر ،کل زکوٰۃ  کتنی دوں ؟

زکوٰۃ کافرض اداکرنےکیلئےتاکہ  گناہگارنہ بنوں بھلےزیادہ چلاجائےلیکن فرض ادا ہوجائےاس لئےجلدازجلد جواب سےمطلع فرمائیں؟جزاک اللہ خیرا       

الجواب حامدا   ومصلیا

            صورتِ مسئولہ میں سائلہ پرحاصل شدہ رقم (ساڑھےبارہ ہزارروپے)کی زکوٰۃ دینا لازم ہے،پورےپچاس ہزارروپےکی زکوٰۃ لازم نہیں ،اوریہ زکوٰۃ گذشتہ تمام سالوں کی دینی ہوگی،(۱)  جس کاطریقہ کاریہ ہوگاکہ ڈھائی فیصد سب سےپہلےسال کی طرف سےیعنی ساڑھے بارہ ہزارروپےمیں ۵۰/۳۱۲بطورزکوٰۃ الگ کرلئےجائیں ،اب اس سےاگلےسال کی زکوٰۃ مابقیہ رقم یعنی ۵۰/۱۲،۱۸۷کی نکالی جائے،یعنی /۳۰۵روپے،اس طرح مابقیہ رقم کاڈھائی فیصدنکال کرہرہرسال کی زکوٰۃ اداکی جائے،البتہ شروع چندسالوں کی جوزکوٰۃ اداکی جاچکی  ان سالوں کی دوبارہ زکوٰۃ ادانہیں کرنی ہوگی۔

الدر المختار – (2 / 266)

( ولو كان الدين على مقر مليء أو ) على ( معسر أو مفلس ) أي محكوم بإفلاسه ( أو ) على ( جاحد عليه بينة  ..……( فوصل إلى ملكه لزم زكاة ما مضى )…

التخريج

(۱)الفتاوى الهندية – (1 / 175)

وَإِنْ كَانَ الْقَاضِي عَالِمًا بِالدَّيْنِ فَعَلَيْهِ زَكَاةُ مَا مَضَى، وَفِي مُقِرٍّ بِهِ تَجِبُ مُطْلَقًا سَوَاءٌ كَانَ مَلِيًّا أَوْ مُعْسِرًا أَوْ مُفْلِسًا كَذَا فِي الْكَافِي. وَإِنْ كَانَ الدَّيْنُ عَلَى مُفْلِسٍ فَلَّسَهُ الْقَاضِي فَوَصَلَ إلَيْهِ بَعْدَ سِنِينَ كَانَ عَلَيْهِ زَكَاةُ مَا مَضَى فِي قَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ وَأَبِي يُوسُفَ رَحِمَهُمَا اللَّهُ تَعَالَى كَذَا فِي الْجَامِعِ الصَّغِيرِ لِقَاضِي خَانْ.

الجامع الصغير وشرحه النافع الكبير – (1 / 122)

 وَإِن كَانَ الدّين على مُفلس وَهُوَ مقرّ بِهِ كَانَ نِصَابا عِنْد أبي حنيفَة وَأبي يُوسُف وَعند مُحَمَّد لَا ذكر الطَّحَاوِيّ هَذَا الِاخْتِلَاف

الدر المختار – (2 / 266)

والأصل فيه حديث علي لا زكاة في مال الضمار وهو ما لا يمكن الانتفاع به مع بقاء الملك

فتح القدير للمحقق ابن الهمام الحنفي – (3 / 487)

( قَوْلُهُ وَلَنَا قَوْلُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : لَا زَكَاةَ فِي مَالِ الضِّمَارِ ) هَكَذَا ذَكَرَهُ مَشَايِخُنَا عَنْهُ. وَرَوَى أَبُو عُبَيْدٍ الْقَاسِمُ بْنُ سَلَّامٍ فِي كِتَابِ الْأَمْوَالِ : حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ الْحَسَنُ عَنْ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ قَالَ : إذَا   حَضَرَ الْوَقْتُ الَّذِي يُؤَدِّي فِيهِ الرَّجُلُ زَكَاتَهُ أَدَّى عَنْ كُلِّ مَالٍ وَعَنْ كُلِّ دَيْنٍ إلَّا مَا كَانَ ضِمَارًا لَا يَرْجُوهُ .

بندہ کےنزدیک اس مسئلہ میں گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ نہیں ہونی چاہیے اس لئےکہ اس کاحکم مال ضمارکاہےاورمال ضمارمیں گذشتہ سالوں کی زکوٰۃ لازم نہیں ہوتی!

                تفصیل کیلئے…(زکوٰۃ کےمسائل کاانسائیکلوپیڈیاص:۳۵۱)دیکھئے

اپنا تبصرہ بھیجیں