علامات قیامت اور قیامت کا وقوع:دوسری قسط

علامات قیامت اور قیامت کا وقوع:دوسری قسط

جب آپ کی بیعت کا واقعہ مشہور ہو گا تو مدینہ منورہ میں جو فوجیں مسلمانوں کی ہوں گی وہ مکہ چلی آئیں گی اور ملک شام،عراق اور یمن کے ابدال اور اولیاء سب آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور بھی عرب کی بہت سی فوجیں اکٹھی ہو جائیں گی۔جب یہ خبر مسلمانوں میں مشہور ہو گی،ایک شخص خراسان سے حضرت مہدی کی مدد کے لیے ایک بڑی فوج لے کر چلے گا،جس کے لشکر کے آگے چلنے والے حصے کے سردار کا نام منصور ہو گا،وہ راستے میں بہت سے بد دینوں کا صفایا کرتا ہوا جائے گا، جس شامی شخص کا اوپر ذکر آیا کہ سیدوں کا دشمن ہو گا چونکہ حضرت مہدی بھی سید ہوں گے وہ شخص حضرت مہدی سے لڑنے کے لیے ایک فوج بھیجے گا، جب یہ فوج مکہ اور مدینہ کے درمیان کے جنگل میں پہنچے گی اور ایک پہاڑ کے نیچے ٹھہرے گی تو یہ سب کے سب زمین میں دھنس جائیں گے، صرف دو آدمی بچ جائیں گے جن میں سے ایک تو حضرت مہدی کو جا کر خبر دے گا اور دوسرا اس شامی کو خبر پہنچائے گا۔ عیسائی ہر طرف سے فوجیں جمع کریں گے اور مسلمانوں سے لڑنے کی تیاری کریں گے۔ اس لشکر میں اس روز اسّی جھنڈے ہوں گے اور ہر جھنڈے کے ساتھ بارہ ہزار آدمی ہوں گے، کل نو لاکھ ساٹھ ہزار آدمی ہوں گے۔ حضرت مہدی مکہ سے چل کر مدینہ تشریف لائیں گے اور وہاں رسول اللہ ﷺ کے روضۂ مبارک کی زیارت کر کے شام کی طرف روانہ ہوں گے اور شہر دمشق تک پہنچنے پائیں گے کہ دوسری طرف سے عیسائیوں کی فوج مقابلہ میں آ جائے گی۔ حضرت مہدی کی فوج تین حصوں میں تقسیم ہو جائے گی۔ ایک حصہ تو بھاگ جائے گا، ایک حصہ شہید ہو جائے گااور ایک حصے کو فتح ہو گی اور اس شہادت اور فتح کا قصہ یہ ہو گا کہ حضرت مہدی عیسائیوں سے لڑنے کے لیے لشکر تیار کریں گے اور بہت سے مسلمان آپس میں قسم کھائیں گے کہ فتح کیے بغیر نہیں ہٹیں گے، پس اکثر مسلمان شہید ہوجائیں گے۔ صرف تھوڑے سے بچیں گے جن کو لے کر حضرت اپنے لشکر میں چلے آئیں گے۔ اگلے دن پھر اسی طرح ہو گا کہ قسم کھا کر جائیں گے اور تھوڑے سے بچ کر آئیں گے،تیسرے دن بھی ایسا ہی ہو گا۔ آخرچوتھے دن یہ تھوڑے سے آدمی مقابلہ کریں گے اور اللہ تعالیٰ ان کو فتح دیں گے۔ پھر کافروں کا حوصلہ ٹوٹ جائے گا۔ اس کے بعد حضرت مہدی ملک کا بندوبست شروع کریں گے اور ہر طرف فوجیں روانہ کریں گے اور خود ان سارے کاموں سے نمٹ کر قسطنطنیہ فتح کرنے کو چلیں گے۔ جب دریائے روم کے کنارے پر پہنچیں گے تو بنو اسحاق کے ستر ہزار آدمیوں کو کشتیوں پر سوار کر کے اس شہر کو فتح کر نے کے لیے بھیج دیں گے، جب یہ لوگ شہر کی فصیل کے مقابل پہنچیں گے تو (( اﷲ أکبر ، اﷲ أکبر )) بآواز بلند کہیں گے، اس نام کی برکت سے شہر پناہ کے سامنے کی دیوار گر پڑے گی اور مسلمان حملہ کر کے شہر کے اندر گھس جائیں گے اور کفار کو قتل کر دیں گے اور خوب عدل و انصاف سے ملک کا بندوبست کریں گے۔ حضرت مہدی سے جب بیعت ہوئی تھی اس وقت سے اس فتح تک چھ سال یا سات سال کی مدت گزرے گی۔حضرت یہاں کے بندوبست میں لگے ہوں گے کہ ایک جھوٹی خبر مشہور ہوگی کہ شام میں دجال آگیا ہے اور تمہارے خاندان میں فتنہ و فساد کر رہا ہے، اس خبر پر حضرت مہدی شام کی طرف سفر کریں گے اور تحقیق حال کے لیے نو یا پانچ سواروں کو آگے بھیج دیں گے، ان میں سے ایک شخص آ کر خبر دے گا کہ وہ خبر محض غلط تھی، ابھی دجال نہیں نکلا، حضرت کو اطمینان ہو جائے گا اور پھر سفر میں جلدی نہیں کریں گے، اطمینان کے ساتھ درمیان کے ملکوں کا بندوبست دیکھتے بھالتے شام پہنچیں گے، وہاں پہنچ کر تھوڑے ہی دن گزریں گے کہ دجال بھی نکل آئے گا۔دجال یہودیوں کی قوم میں سے ہو گا۔ پہلے شام اور عراق کے درمیان میں سے نکلے گا اور نبوت کا دعویٰ کرے گا،پھر اصفہان میں پہنچے گا اور وہاں کے ستر ہزار یہودی اس کے ساتھ ہو جائیں گے اور پھر خدائی کا دعویٰ شروع کر دے گا۔

اسی طرح بہت سے ملکوں سے گزرتا ہوا یمن کی سرحد تک پہنچے گا اور ہر جگہ سے بہت سے بد دین ساتھ ہو تے جائیں گے،یہاں تک کہ مکہ معظمہ کے قریب آ کر ٹھہرے گا،لیکن فرشتوں کی حفاظت کی وجہ سے شہر کے اندر نہ جانے پائے گا، پھر وہاں سے مدینہ کا ارادہ کرے گا اور وہاں بھی فرشتوں کا پہرہ ہو گا جس سے اندر نہ جانے پائے گا،اس عرصے میں مدینہ منورہ میں زلزلہ آئے گا اور جتنے آدمی دین میں سست اور کمزور ہوں گے سب زلزلہ سے ڈر کر مدینہ سے باہر نکل کھڑے ہوں گے اور دجال کے پھندے میں پھنس جائیں گے، اس وقت مدینہ میں ایک بزرگ ہوں گے جو دجال سے خوب بحث کریں گے۔دجال جھنجھلا کر ان کو قتل کر دے گا اور پھر زندہ کر کے پوچھے گا اب تو مجھے خدا مانتا ہے؟ وہ کہیں گے کہ اب تو او ر بھی یقین ہو گیا کہ تو دجال ہے، پھر وہ ان کو مارنا چاہے گا مگر اس کا کچھ بس نہ چلے گا اور ان پر کوئی چیز اثر نہیں کرے گی۔ وہاں سے دجال ملک شام کو روانہ ہو گا۔ جب دمشق کے قریب پہنچے گاتو حضرت مہدی وہاں پہلے سے پہنچ چکے ہوں گے اور لڑائی کی تیاری میں مشغول ہوں گے کہ عصر کا وقت آ جائے گا اور مؤذن اذان کہے گا، لوگ نماز کی تیاری میں ہوں گے کہ اچانک حضرت عیسیٰ علیہ السلام دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے آسمان سے اترتے نظر آئیں گے اور جامع مسجد کے مشرقی مینارے پر آ کر ٹھہریں گے اور وہاں سے زینہ لگا کر نیچے تشریف لائیں گے۔ حضرت مہدی سب لڑائی کا انتظام ان کے سپرد کرنا چاہیں گے، وہ فرمائیں گے لڑائی کا انتظام آپ ہی کریں، میں صرف دجال کے قتل کے لیے آیا ہوں، جب صبح ہو گی حضرت مہدی لشکر کو آراستہ فرمائیں گے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک گھوڑا اور ایک نیزہ منگواکر دجال کی طرف بڑھیں گے اور اہلِ اسلام دجال کے لشکر پر حملہ کریں گے اور بہت سخت لڑائی ہوگی،اس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سانس میں یہ تاثیر ہو گی کہ جہاں تک نگاہ جائے وہاں تک سانس پہنچ سکے گی اور جس کافر کو سانس کی ہوا لگا دیں گے وہ فوراً ہلاک ہو جائے گا۔ دجال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھ کر بھاگے گا۔ آپ اس کا پیچھا کریں گے، یہاں تک کہ بابؔ لد کے مقام پر پہنچ کر نیز ے سے اس کا کام تمام کر دیں گے اور مسلمان دجال کے لشکر کو قتل کرنا شروع کریں گے، پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام شہر شہر تشریف لے جا کر جتنے لوگوں کو دجال نے ستایا تھا سب کو تسلی دیں گے اور اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے کوئی کافر روئے زمین پر نہیں رہے گا،پھر حضرت مہدی کا انتقال ہوجائے گا اور سارا انتظام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ میں آ جائے گا۔پھر یا جو ج ماجوج نکلیں گے، ان کے رہنےکی جگہ جہاں شمال کی طرف آبادی ختم ہوتی ہے اس سے بھی آگے ہے اور ادھر کا سمندر زیادہ سردی کی وجہ سے ایسا جما ہوا ہے کہ اس میں جہاز بھی نہیں چل سکتا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق طور پہاڑ پر لے جائیں گے اور یا جوج ماجوج بڑی تباہی مچائیں گے۔آخر کار اللہ تعالیٰ ان سب کو ہلاک کردیں گے اور عیسیٰ علیہ السلام پہاڑ سے اتر آئیں گے اور چالیس برس کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام انتقال فرمائیں گے اور آپ ﷺ کے روضہ میں دفن ہوں گے۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔)

اپنا تبصرہ بھیجیں