علامات قیامت اور قیامت کا وقوع:پہلی قسط

علامات قیامت اور قیامت کا وقوع:پہلی قسط

جس طرح انسانی جسم پرموت طاری ہوتی ہےبالکل اسی طرح کائنات پر بھی موت طاری ہوگی ۔انسانی جسم چھوٹی کائنات ہےاور یہ دنیابڑی کائنات،جب چھوٹی کائنات کا دی اینڈحقیقت ہے تو بڑی کائنات کا دی اینڈبھی حقیقت ہے۔

اﷲ جل شانہ نے ہر چیز کو جوڑےکی صورت میں پیدا فرمایا ہے۔ آسمان کی جوڑی زمین، اندھیرے کی جوڑی روشنی ، زندگی کی جوڑی موت، مرد کی جوڑی عورت، وجود کی جوڑی عدم، اسلام کی جوڑی کفر، جاندار کی جوڑی بے جان، آزادی کی جوڑی غلامی، عروج کی جوڑی زوال، دن کی جوڑی رات، غرض یہ کہ جب ہر چیز جوڑے دار پیدا کی گئی ہے تو اس دنیا کی بھی ایک جوڑی ہے اور وہ ہےقیامت اورآخرت!

تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قیامت برحق ہے ،لیکن قیامت کب واقع ہوگی اس کا علم سوائے خالق کائنات کے اور کسی کو نہیں ،البتہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی احادیث مبارکہ میں قیامت کی بے شمار علامات بیان فرمائی ہے۔ذیل میں ان کا ذکر کیا جاتا ہے!

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

’’جب لوگ بیت المال کو اپنی ملک سمجھنے لگیں، اور زکوٰۃ کو تاوان کی طرح مشکل سمجھیں، امانت کو غنیمت کا مال سمجھیں،مرد بیوی کی تابعداری اور ماں کی نافرمانی کرے،باپ کو غیر سمجھیں اور دوست کو اپنا سمجھیں، دین کا علم دنیا کمانے کے لیے حاصل کریں، حکمرانی اور حکومت ایسوں کو ملے جو سب سے زیادہ نکمے ہوں یعنی بد ذات، لالچی اور بداخلاق ہوں اور جو جس کام کے لائق نہ ہوں وہ کام ان کے سپرد ہو،لوگ ظالموں کی تعظیم اس خوف سے کریں کہ یہ ہمیں تکلیف نہ پہنچائیں، شراب کھلم کھلا پی جانے لگے،ناچنے گانے والی عورتوں کا رواج ہو جائے، موسیقی کے آلات کثرت سے ہو جائیں، پچھلے لوگ امت کے پہلے بزرگوں کو برا بھلا کہنے لگیں،تو ایسے وقت میں تم لوگ سرخ آندھی آنے، آسمان سے پتھر برسنے،صورتیں بدل جانے اور ایسی آفتوں کا انتظار کرو جو لگا تار اس طرح آنے لگیں گی جیسے بہت سے دانے کسی دھاگے میں پرو رکھے ہوں اور وہ دھاگہ ٹوٹ جائے اور سب دانے یکے بعد دیگرے گرنے لگیں۔‘‘

مختلف احادیث میں یہ نشانیاں بھی آئی ہیں کہ! دین کا علم کم ہو جائے گا،جھوٹ بولنا ہنر سمجھا جائے گا، امانت کا خیال دلوں سے جاتا رہے گا، حیا و شرم جاتی رہے گی،ہر طرف کافروں کا غلبہ ہو جائے گا، نئی نئی غلط سلط باتیں ایجاد ہونے لگیں گی، اس وقت ملک شام میں ایک شخص پیدا ہوگا جو سیدوں کا خون کرے گا اور مصر و شام میں اس کا حکم چلے گا۔ جب یہ ساری نشانیاں ہو جائیں گی ،اس وقت سب ملکوں میں عیسائیوں کی حکمرانی ہو جائے گی۔اسی عرصے میں روم کے مسلمان بادشاہ کی عیسائیوں کی ایک جماعت سے لڑائی ہو گی اور عیسائیوں کی دوسری جماعت سے صلح ہو جائے گی، دشمن جماعت شہر قسطنطنیہ پر چڑھائی کر کے قبضہ کر ے گی،وہ بادشاہ اپنا ملک چھوڑ کر شام کے ملک میں چلا جائے گا اور عیسائیوں کی جس جماعت سے صلح ہو ئی تھی اس کو اپنے ساتھ شامل کر کے اس دشمن جماعت سے بھر پور لڑائی لڑے گا اور اسلام کے لشکر کو فتح ہو گی۔ایک دن حلیف عیسائیوں میں سے ایک شخص ایک مسلمان کے سامنے کہنے لگے گا کہ ہماری صلیب کی برکت سے فتح ہوئی۔ مسلمان اس کے جواب میں کہے گا کہ اسلام کی برکت سے فتح ہوئی، اسی میں بات بڑھ جائے گی یہاں تک کہ دونوں اپنے اپنے مذہب والوں کو پکار کر جمع کرلیں گے اور آپس میں لڑائی ہوگی، اس میں اسلام کا بادشاہ شہید ہو جائے گا اور شام کے ملک میں بھی عیسائیوں کی عملداری ہو جائے گی اور یہ عیسائی اس دشمن جماعت سے صلح کر لیں گے۔بچے کھچے مسلمان مدینہ کو چلے جائیں گے اور خیبر تک عیسائیوں کی حکمرانی ہو جائے گی، اس وقت مسلمانوں کو فکر لاحق ہو جائے گی کہ حضرت مہدی کو تلاش کر نا چاہیے تاکہ ان مصیبتوں سے جان چھوٹے۔ اس وقت حضرت مہدی مدینہ منورہ میں ہوں گے اور اس ڈر سے کہ کہیں لوگ حکومت قبول کرنے کے لیے مجبور نہ کریں،مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ کو چلے جائیں گے اور اس زمانے کے ولی جو ابدال کا درجہ رکھتے ہیں سب حضرت مہدی کی تلاش میں ہوں گے اور بعض لوگ مہدی ہونے کے جھوٹے دعوے کرنا شروع کردیں گے۔غرض حضرت مہدی خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے حجرِ اسود اور مقامِ ابراہیم کے درمیان ہوں گے کہ بعض نیک لوگ ان کو پہچان لیں گے اور اصرار کر کے حاکم بنانے کے لیے ان کے ہاتھ پر بیعت کر لیں گے اور اسی بیعت میں آسمان سے ایک آواز آئے گی جس کو وہاں موجودسب لوگ سنیں گے، وہ آواز یہ ہو گی کہ یہ اللہ تعالیٰ کے خلیفہ یعنی حاکم بنائے ہوئے حضرت مہدی ہیں اور حضرت مہدی کے ظہور سے قیامت کی بڑی نشانیاں شروع ہو جائیں گی۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔۔)

اپنا تبصرہ بھیجیں