علامات قیامت اور قیامت کا وقوع:تیسری قسط

علامات قیامت اور قیامت کا وقوع:تیسری قسط

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد آپ کی گدی پرملک یمن کا رہنے والا بیٹھے گا،جس کا نام جحجاح ہو گا،اور وہ قحطان کے قبیلے سے ہوں گے جو بہت دینداری اور انصاف کے ساتھ حکومت کریں گے، ان کے بعد یکے بعد دیگرے کئی بادشاہ ہوں گے، پھر رفتہ رفتہ نیک باتیں کم ہونا شروع ہوں گی اور بری باتیں بڑھنے لگیں گی، اس وقت آسمان پر ایک دھواں سا چھا جائے گا اور زمین پر بر سے گا جس سے مسلمانوں کو زکام اور کافروں کو بیہوشی ہو گی۔ چالیس روز کے بعد آسمان صاف ہو جائے گا اور اس وقت قریب قریب بقر عید کا مہینہ ہو گا۔دسویں تاریخ کے بعد دفعۃً ایک رات اتنی لمبی ہو گی کہ مسافروں کا دل گھبرا جائے گا،اور بچے سوتے سوتے اکتا جائیں گے اور چو پائے جانور جنگل میں جانے کے لیے چلانے لگیں گے اور کسی طرح صبح نہ ہو گی۔یہاں تک کہ تمام آدمی ہیبت اور گھبراہٹ سے بے قرار ہو جائیں گے۔ جب وہ رات تین راتوں کے برابر ہو جائے گی اس وقت سورج تھوڑی روشنی لیے ہوئے (جیسے گہن لگنے کے وقت ہوتا ہے)مغرب کی طرف سے نکلے گا،اس وقت کسی کا ایمان یا توبہ قبول نہیں ہوگی۔ جب سورج اتنا اونچا ہو جائے گا جتنا دوپہر سے پہلے ہوتا ہے تو دوبارہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے مغرب ہی کی طرف لوٹ جائے گا اور معمول کے مطابق غروب ہوگا، پھر ہمیشہ اپنے قدیم معمول کے مطابق روشن اور چمکدارنکلتا رہے گا، اس کے تھوڑے ہی دن کے بعد صفا پہاڑ جو مکہ میں ہے زلزلہ سے پھٹ جائے گا اور اس جگہ سے بہت عجیب شکل و صورت کا ایک جانور نکل کر لوگوں سے باتیں کر ے گا اور بڑی تیزی سےساری زمین میں گھومتا جائے گا اور ایمان والوں کی پیشانی پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا سے نورانی لکیر کھینچ دے گا جس سے اس کاسارا چہرہ روشن ہو جائے گا اور بے ایمان کی ناک یا گردن پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی سے سیاہ مہر لگا ئے گا جس سے اس کا سارا چہرہ میلا ہو جائے گا اوریہ کام کر کے وہ غائب ہو جائے گا۔اس کے بعد جنوب کی طرف سے نہایت فرحت دینے والی ایک ہوا چلے گی، اس سے سب ایمان والوں کی بغل میں کچھ نکل آئے گا جس سے وہ مر جائیں گے، جب سب مسلمان مر جا ئیں گے تو ساری دنیا میں حبشی کافروں کی عملداری ہو جائے گی اور وہ لوگ خانہ کعبہ کو شہید کریں گے، حج بند ہو جائے گا، قرآن شریف دلوں سے اور کاغذوں سے اٹھ جائے گا، اللہ تعالیٰ کا خوف اور مخلوق کی شرم اٹھ جائے گی اور کوئی اللہ اللہ کہنے والا نہیں رہے گا۔ اس وقت ملک شام میں بہت ارزانی ہوگی، لوگ اونٹوں، سواریوں پراور پیدل ادھر نکل پڑیں گے اور جو رہ جائیں گے ایک آگ پیدا ہو گی ان سب کو ہانکتی ہوئی شام میں پہنچا دے گی اور اس میں حکمت یہ ہے کہ قیامت کے روز ساری مخلوق اسی ملک میں جمع ہو گی۔ پھر وہ آگ غائب ہو جائے گی اور اس وقت دنیا کو بڑی ترقی ہو گی۔تین چار سال اسی حال میں گزریں گے کہ دفعۃً جمعہ کے دن محرم کی دسویں تاریخ صبح کے وقت سب لوگ اپنے اپنے کاموں میں لگے ہوں گے کہ صور پھونک دیا جائے گا۔اوّل اوّل ہلکی ہلکی آواز ہو گی، پھر اس قدر بڑھے گی کہ اس کی ہیبت سے سب مر جائیں گے۔ زمین و آسمان پھٹ جائیں گے اور دنیا فنا ہو جائے گی۔ جب آفتاب مغرب سے نکلا تھا اس وقت سے صور کے پھونکنے تک ایک سو بیس برس کا زمانہ ہو گا۔ یہاں سے قیامت کا دن شروع ہو گا۔

قیامت کے دن کا ذکر

جب صور پھونکنے سے پوری دنیا فنا ہو جائے گی اور چالیس برس اس ویرانی کی حالت میں گزر جائیں گے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے دوسری بار صور پھونکا جائے گا اور زمین و آسمان پہلے کی طرح ہو جائیں گے اور مردے قبروں سے زندہ ہو کر نکل پڑیں گے اور قیامت کے میدان میں اکٹھے کر دیے جائیں گے اورسورج بہت نزدیک ہو جائے گا جس کی گرمی سے لوگوں کے دماغ پکنے لگیں گے اور جیسے جیسے لوگوں کے گناہ ہوں گے اتنا ہی زیادہ پسینہ نکلے گا اور لوگ اس میدان میں بھوکے پیاسے کھڑے کھڑے پریشان ہوجائیں گے۔ جو نیک لوگ ہوں گے ان کے لیے اس زمین کی مٹی میدے کی طرح بنا دی جائے گی، اس میں سے کھا کر بھوک کا علاج کریں گے اور پیاس بجھانے کے لیے حوضِ کوثر پر جائیں گے۔ پھر جب میدانِ حشر میں کھڑے کھڑے تنگ ہوجائیں گے اس وقت سب مل کر پہلے حضرت آدم علیہ السلام کے پاس پھر دوسرے انبیائے کرام علیہم السلام کے پاس اس بات کی سفارش کرانے کے لیے جائیں گے کہ ہمارا حساب و کتاب اور فیصلہ جلدی ہوجائے۔سارے انبیائے کرام علیہم السلام کوئی نہ کوئی عذر کر دیں گے اور سفارش کا وعدہ نہیں کریں گے۔آخرمیں ہمارے پیارے نبی_ کی خدمت میں حاضر ہو کر وہی درخواست کریں گے۔ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اسے قبول فرما کر مقامِ محمود میں (ایک مقام کا نام ہے) تشریف لے جا کر شفاعت فرمائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہو گا کہ ہم نے سفارش قبول کی،اب ہم زمین پر اپنی تجلی فرما کر حساب کتاب کیے دیتے ہیں۔ پہلے آسمان سے فرشتے بہت کثرت سے اترنا شروع ہوں گے اور تمام آدمیوں کو ہر طرف سے گھیر لیں گے، پھر اللہ تعالیٰ کا عرش اترے گا اور اس پر اللہ تعالیٰ کی تجلی ہو گی اور حساب کتاب شروع ہو جائے گا۔اعمال نامے اڑائے جائیں گے۔ ایمان والوں کے دائیں ہاتھ میں اور بے ایمان کے بائیں ہاتھ میں وہ خود بخود آجائیں گے اور اعمال تولنے کی ترازو کھڑی کی جائے گی جس سے سب کی نیکیاں اور برائیاں معلوم ہو جائیں گی اور پل صراط پر چلنے کا حکم ہو گا جس کی نیکیاں تول میں زیادہ ہوں گی وہ پل سے پار ہو کر جنت میں جا پہنچے گا اور جس کے گناہ زیادہ ہوں گے، اگر اللہ تعالیٰ نے معاف نہ کر دیے ہوں گے تو وہ دوزخ میں گر جائے گا اور جس کی نیکیاں اور گناہ برابر ہوں گے وہ ’’اعراف‘‘ میں رہ جائے گا جو جنت اور جہنم کے درمیان ایک جگہ ہے، اس کے بعد ہمارے پیارے پیغمبراور دوسرے حضرات انبیائے کرام علیہم السلام، علمائے کرام، اولیائے کرام، شہدا، حفاظِ قرآن اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندے گنہگاروں کو بخشوانے کے لیے شفاعت کریں گے،ان کی شفاعت قبول ہو گی۔جس کے دل میں ذرا بھی ایمان ہوگا وہ دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔اسی طرح جو لوگ اعراف میں ہوں گے وہ بھی آخر میں جنت میں داخل کر دیے جائیں گے اور دوزخ میں صرف وہی لوگ رہ جائیں گے جو بالکل کافر اور مشرک ہیں اور ایسے لوگوں کو کبھی دوزخ سے نکلنا نصیب نہ ہو گا۔ جب سب جنتی اور دوزخی اپنے اپنے ٹھکانوں میں جائیں گے اس وقت اللہ تعالیٰ دوزخ اور جنت کے درمیان میں موت کو ایک دنبہ کی صورت میں ظاہر کر کے سب جنتیوں اور دوزخیوں کو دکھا کر ذبح کرا دیں گے اور فرمائیں گے اب نہ جنتیوں کو موت آئے گی اور نہ دوزخیوں کو۔ سب کو اپنے اپنے ٹھکانے پر ہمیشہ کے لیے رہنا ہو گا، اس وقت نہ جنتیوں کی خوشی کی کوئی حد ہو گی اور نہ دوزخیوں کے صدمے اور رنج کی کوئی انتہا ہو گی۔

قیامت اور سائنس

سائنسی لحاظ سے قیامت عین ممکنات میں سے ہے۔ سائنس تسلیم کرچکی ہے کہ کائنات اپنا آغاز رکھتی ہےاور ایک وقت آئے گا کہ کائنات فنا ہوجائے گی۔ آئن اسٹائن کہتا ہے کہ کائنات غبارے کی طرح پھیل رہی ہےاورآخر کار غبارے کی طرح پھٹ جائے گی۔ قانون ناکارگی ہمیں باور کراتا ہے کہ کائنات کی ناکارگی بڑھ رہی ہے ، ایک وقت آئے گا کہ تمام موجودات کی حرارت یکساں ہوجائے گی اور کوئی کارآمد توانائی باقی نہیں رہے گی اورزندگی بھی اسی کے ساتھ ختم ہوجائے گی۔تاہم سائنس کے مطابق وقوع قیامت کا سبب کچھ اور بھی ہوسکتا ہے،مثلا: ہولناک زلزلہ جو کسی بشرکوباقی نہ رہنے دے،فلکی اجرام کا باہمی تصادم یا پھر اندھاطوفان جو ہرایک چیز کو نگل جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں