اللہ تعالیٰ کے کون سے نام بندوں کے لیے بھی استعمال ہوسکتے ہیں؟

سوال: اللہ تعالی کے ناموں میں سے ایسے کون سے نام ہیں جو شرعا بندوں کے لئے بھی استعمال ہوسکتے ہیں؟

جواب: اس سلسلے میں “معارف القرآن” اور فتاوی عثمانی میں محققانہ گفتگو ہے. ذیل میں اسے نقل کیا جارہا ہے امید ہے اس سے آپ کو اپنے سوال کا جواب مل جائے گا۔

چنانچہ مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمتہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:

“اسمائے حسنیٰ میں بعض نام ایسے بھی ہیں جن کو خود قرآن و حدیث میں دوسرے لوگوں کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے، اور بعض وہ ہیں جن کو سوائے اللہ تعالی کے اور کسی کے لیے استعمال کرنا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں۔ تو جن ناموں کا استعمال غیر اللہ کے لئے قرآن و حدیث سے ثابت ہے وہ نام تو اوروں کے لیے بھی استعمال ہوسکتے ہیں جیسے رحیم، رشید، علی، کریم، عزیز وغیرہ۔ اور اسمائے حسنیٰ میں سے وہ نام جن کا غیر اللہ کے لئے استعمال کرنا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں وہ صرف اللہ تعالی کے لیے مخصوص ہیں، ان کو غیر اللہ کی لیے استعمال کرنا اِلحاد مذکور میں داخل اور ناجائز و حرام ہے۔”

( معارف القرآن ج:۴ ص:۱۳۲ سورہ اعراف:۱۸۰)

فتاوی عثمانی میں ہے:

” ان عبارتوں سے اس بارے میں یہ اصول مستنبط ہوتے ہیں:

۱- وہ اسمائے حسنیٰ جو باری تعالی کے اسمِ ذات ہوں یا صرف باری تعالی کی صفات مخصوصہ کے معنی میں ہی استعمال ہوتے ہوں، ان کا استعمال غیر اللہ کے لیے کسی حال جائز نہیں، مثلاً: اللّٰہ، الرحمٰن، القدّوس، الجبّار، المتکبّر، الخالق، البارئ، المصوّر، الرزّاق، الغفّار، القھّار، التّوّاب، الوھّاب، الخلّاق، الفتّاح،القّیوم، الرّبّ، المحیط، الملیک، الغفور، الاَحد، الصّمد، الحق، القادر، المحی

۲- وہ اسمائے حسنیٰ جو باری تعالیٰ کی صفاتِ خاصّہ کے علاوہ دوسرے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہوں اور دوسرے معنی کے لحاظ سے ان کا اطلاق غیر اللہ پر کیا جاسکتا ہو، ان میں تفصیل یہ ہے کہ اگر قرآن و حدیث، تعامّلِ امت یا عرف عام میں ان اسماء سے غیر اللہ کا نام رکھنا ثابت ہو تو ایسا نام رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں، مثلاً: عزیز، علی، کریم، رحیم، عظیم، رشید، کبیر، بدیع، کفیل، ہادی، واسع،حکیم وغیرہ، اور جن اسمائے حسنی سے نام رکھنا نہ قرآن و حدیث سے ثابت ہو اور نہ مسلمانوں میں معمول رہا ہو، غیر اللہ کو ایسے نام دینے سے پرہیز لازم ہے۔

۳- مذکورہ دو اصولوں میں سے یہ اصول خود بخود نکل آیا کہ جن اسمائے حسنیٰ کے بارے میں یہ تحقیق نہ ہو کہ قرآن و حدیث، تعاملِ امت یا عرف میں وہ غیر اللہ کے لیے استعمال ہوتے ہیں یا نہیں؟ ایسے نام رکھنے سے بھی پرہیز لازم ہے، کیونکہ اسمائے حسنیٰ میں اصل یہ ہے کہ ان سے غیر اللہ کا نام رکھنا جائز نہ ہو، جواز کے لیے دلیل کی ضرورت ہے۔

ان اصولوں پر تمام اسماء حسنیٰ کے بارے عمل کیا جائے، تاہم یہ جواب چونکہ قواعد سے لکھا ہے اور ہر ہر نام کے بارے میں اسلام میں کوئی تصحیح احقر کو نہیں ملی، اس لیے اگر اس میں دوسرے اہلِ علم سے بھی استصواب کرلیا جائے تو بہتر ہے۔”

(فتاوی عثمانی ج۱ ص ۵۱-۵۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

(1)تفسیر روح المعانی میں علامہ آلوسی لکھتے ہیں:”و ذکر غیر واحد من العلماء اَن ھذہ الاسماء …. تنقسم قسمة اُخری اِلی ما لایجوز اطلاقہ علی غیرہ سبحانہ و تعالیٰ کاللّٰہ والرحمٰن، وما یجوز کالرحیم، والکریم۔”( روح المعانی ج:۹ ص:۱۲۳ طبع مکتبہ رشیدیہ لاہور)

(2) “وجاز التسمیہ بعلیّ ورشید من الاَسماء المشترکہ، ویراد فی حقنا غیر ما یراد فی حق اللہ تعالی۔ وفی رد المحتار: الذی فی التاتر خانیہ عن السراجیہ التسمیہ باسم یوجد فی کتاب اللہ تعالی کالعلیّ والکبیر والرشید والبدیع جائزہ….الخ۔ “ (شامی ج:۵ ص:۲۶۸)

(3)وفی الفتاویٰ الھندیہ: التسمیہ باسم لم یذکرہ اللّٰہ تعالیٰ فی عبادہ ولا ذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولا استعملہ المسلمون تکلموا فیہ ، والاَولیٰ اَن لا یفعل کذا فی المحیط۔ (فتاویٰ ھندیہ : ص:۳۶۲ حظر واباحت باب ۲۲)

واللہ سبحانہ تعالی اعلم

اپنا تبصرہ بھیجیں