عنبر کے متعلق شرعی تحقیق

کچھ عرصہ قبل عنبر (Ambergris) کے متعلق ایک انٹر نیشنل فورم پر یہ سوال اٹھایاگیا کہ جس خوشبو میں عنبر شامل ہو اس کا استعمال جائز ہے یا نہیں ؟ بعد ازاں اس کے خارجی وداخلی استعمال سے متعلق بھی سوالات سامنے آئے ۔ جس کی وجہ سے ہم نے اپنے ادارے SANAHپاکستان کے شعبہ شرعی تحقیق سے رجوع کیا اورا س کے اراکین نے فقہ مقارن کی روشنی میں مذکورہ سولات پر مختلف پہلوؤں سے تحقیق کی جو زیر نظر رسالہ کی صورت میں پیش کی جارہی ہے ۔

ادارہ دیگر اہل علم کی طرف سے آنے والی تحقیق آراء کا بھی خیر مقدم کرتا ہے ۔

از : مفتی یوسف عبدالرزاق چیف ایگریکٹیو SANHA Halal Associates Pakistan

باسمہ تعالیٰ 

نام :عنبر جعفر کے وزن پر عربی زبان کا لفظ ہے۔ 

1) لکھنے میں عین کے بعد نون آتا ہے لیکن پڑھتے وقت اسےمیم ( عمبر ) پڑھا جا تا ہے ۔ 

2) اس کی جمع عنابر آتی ہے ۔ انگریزی نام “Ambergris ” ایمبر گرس ” ہے ۔ ایک اور نام Am bra Grasses ہے ۔

ماہیت 

عنبر کیا ہے ؟معروف ومشہور یہ ہے کہ سرمئی رنگ کا ایک خوشبودار مادہ ہے :

اٹھا لذت عودوعنبر اٹھا 

اٹھا لطف زلف معطر اٹھا ( 1977 ء سر کشیدہ 131) 

یہ مادہ ایک بڑی جسامت والی مچھلی کے پیٹ سے نکل کر پانی کی سطح پر جمع ہوجاتا ہے اس وجہ سے اس مچھلی کو بھی عنبر کہتے ہیں جو عنبر کو نگلتی اور اگلتی ہے ۔ یہ مچھلی اپنے بڑے سر کی وجہ سے دیگر مچھلیوں سے ممتاز ہوتی ہے ۔ بعض اوقات اس مچھلی کا شکار کر کے اس کے پیٹ سے بھی عنبر نکال لیتے ہیں چنانچہ امام شافعی ؒ سے منقول ہے کہ میں نے ایک شخص سے سنا کہ میں نے سمندر میں اگا ہوا عنبر دیکھا جو بکری کی گردن کی طرح مڑا ہوا تھا ۔ یہاں سمندر میں ایک جانور ہوتاہے جو اس عنبر کو کھالیتا ہے مگر عنبر اس کےلیے زہر قاتل ہوتا ہے اس لیے نگلتے ہی مرجاتا ہے پھر وہ مردہ جانور سمندر کی لہروں سے ساحل پر آجاتا ہے اور اس کے پیٹ سے عنبر نکال لیا جاتا ہے ۔

عنبر مختلف قسم کا ہوتا ہے لیکن رنگت کے لحاظ سے بہترین اشہب ( Black Ambergris ) ہوتا ہے جوکہ سفید زردی مائل اور بہت خوشبودار ہوتا ہے اور “اشہب “اس سیاہ رنگ کو کہتے ہیں جس کی سفیدی غالب ہو۔

خوشبویات (fragrances)میں عمدہ اور قیمتی ہونے کے اعتبار سے مشک کے بعد عنبر کا درجہ ہے۔ اس کی کئی انواع واقسام ہیں جن میں سب سے اعلیٰ اشہب رنگ کا پھر نیلا پھر زرد اور سب سے ادنیٰ قسم سیاہ رنگ کا ہوتا ہے ۔

بعض ماہرین کی رائے ہے کہ سمندر میں ایک خاص قسم کا پودا اگتا ہے جس کو سمندری مخلوق کھالیتی ہے اور بطور فضلہ کے خارج کردیتی ہے ۔ مشہور مسلم طبیب اور سائنسدان ابن سینا سے منقول ہے کہ عنبر سمندری مادہ ہے بعض نے کہا کہ سمندری گھاس ہے اور بعض نے سمندری پودا لکھا ہے ۔ ایک مشہور قول یہ ہے کہ مچھلی کی قے (vomit ) ہے ۔

جدید تحقیق

عنبر پر جو تحقیق ہوئی ہے وہ ان آراء سے مختلف نہیں ہے جو بہت علماء اسلام ظاہر کرچکے ہیں چنانچہ امام زمحشری کے حوالے سے تاج العروس میں منقول ہے کہ عنبر سمندر کی سطح پر تیرتا ہو ا مادہ ہے جس میں بسا اوقات پرندوں کی باقیات بھی ملتی ہیں ۔

امام زمحشری کی رائے کو اگر موجودہ تحقیقات کی روشنی میں دیکھا جائے تو ان کی رائے کی اہمیت بڑھ جاتی ہے ۔ عنبر کے متعلق ایک تحقیق یہ ہے کہ عنبردراصل درختوں سے بہنے والی رال اور گوند ہے ۔ جب حشرات اسے کھانے کے لیے قریب آتے ہیں تو اس میں چپک جاتے ہیں اور ہوا بند (Airtight )ہونے کے باعث ہمیشہ کے لیے اس میں مقید ہوجاتے ہیں ۔

عظیم یونانی ماہر حیاتیات اور فلاسفر ” تھیوفہارسٹس ” (Theophrastus ) وہ پہلا شخص تھا جس نے لگ بھگ چار سو سال قبل مسیح میں عنبر کے خواص کے بارے میں تحقیق سے ثابت ہوا کہ عنبر زیادہ تر ان ساحلی علاقوں میں پایا جاتا ہے جہاں ماضی میں صنوبری جنگلات کی بہتات تھی بعد ازاں یہ درخت زیر آب آگئے اور ان کی رال یا گوند درختوں سے علیحدہ ہوکر دلدلی پانی اور ساحلی پہاڑیوں میں پھیل گئی اور مخصوص کیمیائی عوامل کے بعد نیم دائروی شکل کے ٹھوس عنبروں میں تبدیل ہوگئی جنہیں غوطہ خور اور تاجر کی تلاش کرکے فروخت کرتے ہیں ۔

اب تک کی گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ عنبر ایک خوشبودار مادہ ہے مگر یہ مادہ خود کیاہے ؟ اس کے بارے میں مختکف آراء ہیں ۔

مثلا ً 

1۔درختوں کی رال اور گوند ر ۔

2۔سمندر کی تہہ میں اگنے والا پودا ہے ۔

3۔سمندری جڑی بوٹی ہے۔

4۔مچھلی کی قے ہے ۔

5۔مچھلی کا فضلہ ہے ۔

6۔تارکول کی طرح سمندری چشمے سے نکلنے والا مادہ ہے ۔

7۔ایک خاص قسم کی مکھی کا شہد کی طرح چھتہ ہے جو بارشوں اور طوفانوں سے ٹوٹ کر سمندر میں آجاتا ہے ۔

عنبر کے متعلق طب یونانی میں تفصیلات 

عنبر کے متعلق طبیبوں اور حکیموں نے جو کچھ طب کی کتابوں میں لکھا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ عنبر گرم خشک ہے ۔مفرح قلب ،مقوی دماغ اور محرک حرارت غریزی ہے اعصاب کو تقویت بخشتا ہے ۔ عنبر کو زیادہ تر اعصاب اور قلب کے امراض باردہ میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ حرارت غریزی کے ضعف کے وقت اس کو برا نگیختہ کرنے کے لیے کھلایا جاتاہے ۔ عنبر کا کھانا بوڑھوں کے لیے مفید ہے ۔ ضعف اور زخم معدہ کو زائل کرنے کے لیے بھی استعمال کرایا جاتا ہے ۔عنبر کی خاص خصوصیت بطور دوا یہ ہے کہ محرک باہ اور محافظ غریزی ہے لیکن آنتوں اور جگر کے لیے مضر ہے اور اس کے لیے مصلح صمخ ، عربی ، طباشیر ہے ۔مشک اورزعفران کو اس کے بدلے کے طور پر استعمال کیاجاتا ہے ۔ عنبر سے جو مرکبات تیار ہوتے ہیں ان میں خمیرہ ابریشم ، حب عنبر مومیائی اور خمیر ہ گاطؤ زبان عنبری مشہور ہیں ۔

عنبر چونکہ ایک قدرتی نعمت ہے اور بڑی قدر وقیمت رکھتی ہے اس لیے علماء کے درمیان یہ نکتہ بھی زیر بحث آیا ہے کہ دیگر معدنیات کی طرح عنبر پر بھی محصول عائد ہوگا یا نہیں ؟

اور اگر ہوگا تو اس کی مقدار کیا ہوگی ؟

اس بارے میں ائمہ کی آراء مختلف ہیں علماء کی اکثریت کے نزدیک عنبر میں سے حکومت وقت کو محصول وصول کرنے کا حق نہیں ۔یہی رائے مالکیہ، شافعیہ اور احناف میں سے امام ابو حنیفہ اور امام محمد رحمہم اللہ کی ہے۔ تابعین میں سے حضرت عطاء ،امام سفیان ثوری ، ابن ابی لیلیٰ ، حسن بن صالح اور ابو ثور ؒ کا بھی یہی مذہب ہے ۔ جب کہ بعض حنابلہ اور احناف میں سے امام ابو یوسف کی راجئے یہ ہے کہ عنبر میں خمس سے یعنی پانچواں حصہ واجب ہے ۔

عنبر قرآن وحدیث کی روشنی میں 

قرآن کریم میں سمندری عجائبات اور معدنیات کا ذکر ہے مگر نام کے ساتھ عنبر کا ذکر نہیں البتہ احادیث میں عنبر کا بطور خوشبو ذکر موجود ہے ۔ چنانچہ نسائی شریف میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے پوچھا گیا کہ کیا آنحضرتﷺ خوشبو لگاتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا: ” جی ہاں ” مردانہ خوشبو یعنی مشک اور عنبر ۔

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَةَ أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَطَيَّبُ قَالَتْ نَعَمْ بِذِكَارَةِ الطِّيبِ الْمِسْكِ وَالْعَنْبَرِ۔ ۃ( رواہ النسائی والبخاری فی تاریخہ ۔نیل الاوطار ((165.1 

حضرت سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ حائضہ عورت کے کپڑوں کو خون کے دھبے لگ جائیں تو انہیں دھولے اور پھر خوشبودار گھاس یازعفران یا عنبر کو اس پر مل لے ۔اس کے علاوہ کچھ اورروایات بھی ہیں جن میں عنبر پر زکوٰۃ واجب ہونے یا نہ ہونے کی بحث ہے ۔

حدثنا ابن فضیل، عن لیث، عن سعید بن جبیر ، فی الحائض یصیب ثوبھا من دمھا، قال : ( تغسلہ ثم یلطخ مکانہ بالورس والزعفران ، اوالعنبر۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ :1/91 ) 

مشہور تابعی حضرت عطاء بن رباح سے سوال ہوا کہ میت کو مشک لگاسکتے ہیں؟ تو منع فرمایا۔لیکن عنبر کے متعلق جب پوچھا گیا توا س کی اجازت دی۔

عن ابن جریج قال: قلت لعطاء : ایکرہ المسک حنوطا؟ قال : نعم قال: قلت :فالعنبر ؟ قال : ( لا انما العنبر والمسک قطرۃ دابۃ ) ( مصنف عبدا لرزاق الصنعانی :415/3 )

عنبر کے پاک وحلال ہونے سے متعلق مذاہب فقہاء 

فقہ حنفی : 

عنبر کے متعلق فقہ حنفی میں بھی وہی اقوال منقول ہیں جن کا پہلے تذکرہ ہوچکاہے ۔ علامہ کاسانی نے عنبر کو اپنی اصل کے لحاظ سے خوشبوقرار دیا ہے۔علامہ شامی ؒ نے اس قول کو ترجیح دی ہے کہ عنبر اصل میں سمندر میں نکلنے والا چشمہ ہے اور پاک ہے اور فیصلہ یہ کیا ہے کہ عنبر پاک بھی ہے اور حلال بھی ہے ۔ ایک دوسرے مقام پرعلامہ شامی نے عنبر کے استعمال کو دو شرطوں کے ساتھ جائز قرار دیا ہے ۔ یا یہ کہ اتنی مقدار استعمال نہ کیا جائے کہ جس سے نشہ پیدا ہو دوسرے یہ کہ صحت کے لیے مضر ہو۔بہر حال فقہ حنفی کی رو سے عنبر کا بطور خوشبو خارجی استعمال اور بطور دوا یا کھانے کے داخلی استعمال جائز ہے کیونکہ پاک بھی ہے اور حلال بھی ہے ۔

محقق علامہ شامی لکھتےہیں:

وامام العنبر فالصحیح انہ عین فی البحر بمنزلہ القیر وکلاھما طاھر من اطیب الطیب ۔ ( ردالمختار ) (209/1) 

اقول : المراد بما اسکر کثیرہ الخ من الاشربۃ ، وبہ عبر بعضھم والا لزم تحریم القلیل من کل جامد اذا کان کثیرۃ مسکرا کالزعفران والعنبر ، ولم ار من قال بحرمتھا،۔۔۔۔،وان البنج ونحوہ من الجامدات انما یحرم اذا اراد بہ السکر وھو الکثیر منہ، دون القلیل، المراد بہ التداوی ونحوہ کالتطیب بالعنبر وجوزۃ الطیب ، ونظیر ذلک ماکان سمیا قتالا کالمحمود ۃ وھی السقمونیا ونحوھا من الادویۃ السمیۃ فان استعمال القلیل منھا جائز بخلاف القدر المضر فانہ یحرم فافھم واغتم ھذا لتحریر ( الدر المختار وحاشیۃ ابن عابدین رد المختار :4/42)

فقہ شافعی 

فقہ شافعی میں خود بانی مذہب حضرت امام شافعی ؒ سے منقول ہے کہ عنبر پاک ہے ۔ایک کمزور قول یہ ہے کہ عنبر نجس ہے مگر امام زین الدین عمر بن مظفر الوردی الشافعی نے عنبر کے پاک ہونے پر اجماع نقل کیا ہے اسی وجہ سے فقہ شافعی میں عنبر کی خرید وفروخت اور بیع سلم کو جائز لکھا ہے ورنہ ناپاک اشیاء کی تجارت مذہب شافعی میں جائز نہیں ہے ۔ امام وردی نے عنبر کا تذکرہ ان اشیاء میں کیا ہے جو کبھی خوراک کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں۔ پاک ہونے کی وجہ سے عنبر کا داخلی استعمال بھی جائز ہے کیونکہ مذہب شافعی کی رو سے ہر پاک شے کا کھانا جائز ہے ماسوائے ان اشیاء کے جو انسانی صحت یا عقل کے لیے مضر ہوں یا نشہ آور ہوں یا مردار کی دباغت دی ہوئی کھال ہو ۔

عنبر کی ماہیت کے متعلق شافعی مذہب میں تین قول ملتے ہیں ایک یہ کہ سمندری پودا ہے دوسرے یہ کہ سخت اور ٹھوس قسم کی شے ہے جسے جانور نگلنے کے بعد ہضم نہیں کرپاتااور اگل دیتا ہے اور تیسرے یہ کہ جانور کا فضلہ ہے ۔ خشکی کے نباتا ت کی طرح سمندر کے نباتات بھی حلال ہیں اس لیے پہلے قول کے مطابق عنبر کی حلت وطہارت کے متعلق کوئی اشکال پیدا نہیں ہوتا اور اگر یہ قول اختیار کیاجائے کہ عنبر مچھلی کی قے ہے تو ہاضمہ کے اندرونی عمل سے اس کی ساخت تبدیل ہوجاتی ہے اور ساخت کی تبدیلی سے تو ناپاک شے بھی پاک ہوجاتی ہے ار جس صورت میں مچھلی اسے جوں کا توں اگل دیتی ہے اس سورت میں عنبر کا حکم وہی رہے گا جو نگلنے سے پہلے تھاا ور یہ واضح ہے کہ نگلنے سے پہلے وہ پاک اور حلال تھا زیادہ سے ان آلائشوں کو صاف کردیاجائے گا جوا س پر لگی ہوں ۔

امام شافعی ؒ نےا س موضوع پر اپنی عادت کے مطابق بڑی فاضلانہ بحث کی ہے جو کتاب الام میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے اور اس میں حلال وحرام کے متعلق بڑی زریں اصولوں کی طرف رہنمائی ملتی ہے۔

فقہ مالکی : 

مالکی فقہ میں عنبر کے بارے میں تین قول منقول ہیں : 

خوشبودار مادہ ہے مچھلی کی قے ہے یا اس کا فضلہ ہے ۔ پہلے قول کو بعض نے صحیح قرار دیاہے ۔ محقق مالکی علماء کے نزدیک عنبر سمندری جڑی ہوئی ہے جس کی سب سے اعلیٰ اور برتر قسم وہ ہے جو لہروں کی مدد سے ساحل آپہنچتی ہے اور جسے مچھلی کھانے کے بعد اگل دیتی ہے وہ درمیانی نوعیت کا عنبر ہے اور مچھلی کے گلنے سڑنے کے بعد اس کا پیٹ چاک کر کے عنبر نکالاجائے تو وہ سب سے ادنیٰ قسم ہے ۔

عنبر کے خارجی استعمال کے متعلق مالکی میں صراحت کے ساتھ اجازت منقول ہے چنانچہ امام ابن قاسم ؒ کہتے ہیں کہ میں نے امام مالک ؒ سے پوچھا کہ میت کو مشک وعنبر لگاسکتے ہیں ؟ تو جواب دیا کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ عنبر پاک ہے کیونکہ کسی چیز کا بیرونی استعمال کا اسی وقت جائز ہوتا ہے جب وہ پاک ہو۔ جہاں تک عنبر کے داخلی استعمال کا تعلق ہے تو اسی سلسلے میں وہی عام شرائط لاگو ہیں جو کسی بھی حلال شے کے متعلق لاگو ہوتی ہیں یعنی یہ کہ اس کا اتنی مقدار میں استعمال نہ ہو جو ضرر کا باعث ہو یا جس سے نشہ پیدا ہو۔

فقہ حنبلی : فقہ حنبلی میں بھی عنبر کی حقیقت کے متعلق وہی اقوال منقول ہیں جن کا ماقبل میں تذکرہ ہوچکا ہے ۔ مستند حنبلی کتابوں کا رجحان اس طرف ہے کہ عنبر سمندری جڑی بوٹی ہے جو مختلف ذرائع سے انسان کو حاصل ہوتی ہے ۔ اگرچہ اس کا خوردنی استعمال بھی ہوتا ہے مگر اصل میں خوشبودار مادہ ہے اور خوشبو کے مقاصدکے لیے استعمال ہوتی ہے ۔ عنبر کو فقہ حنبلی میں پاک لکھا ہے لیکن پاک ہونے کے ساتھ حلال بھی ہے کیونکہ حنابلہ کے نزدیک ہر پاک چیز حلال ہے جب ضرررساں یا نشہ آور نہ ہو۔ اس لیے پاک وحلال ہونے کی وجہ سے اس کا خارجی اور داخلی استعمال جائز ہے۔ 

حاصل کلام 

المختصر عنبر پاک اور حلال ہے اس وجہ سے اس کا خارجی استعمال (Extrnal use in Cosmetics and personal care products ) چاروں مذاہب کی رو سے جائز ہے جب کہ اس کا اندرونی استعمال (Oral use ) اتنی مقدار جائز ہے جس سے نشہ نہ ہو اور انسانی صحت کے لیے مضر نہ ہو۔

لہذا ماکولات (Edibles ) مشروبات (Beverages )ادویات (pharmaceuticals ) خوشبویات (fragments ٍاور آرائش وزیبائش کی اشیاء میں عنبر کا استعمال جائز ہے اور اگر عنبر سے کوئی نئی چیز کوئی نیا ذائقہ (Flavor/Essence ) وغیرہ تیار کیاجاتا ہے تو وہ بھی حلال ہے ۔ 

واللہ سبحانہ وتعالیٰ

اپنا تبصرہ بھیجیں