عقیدہ تقدیر:دوسری قسط

عقیدہ تقدیر:دوسری قسط

تقدیر کی اقسام

 تقدیر کی درج ذیل تین اقسام ہیں :

1. تقدیر مبرم حقیقی

2. تقدیر مبرم غیر حقیقی

3. تقدیر معلق

پہلی قسم تقدیر مبرم حقیقی ہے۔ یہ آخری فیصلہ ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے لوح محفوظ پر لکھ دیا جاتا ہے اور اس میں تبدیلی نا ممکن ہے اسی لیے جب فرشتے قوم لوط علیہ السلام پر عذاب کا حکم لے کر آئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بارگاہ الہی میں عرض کے باوجود اﷲتعالیٰ نے عذاب نازل کرنے کا حکم دیا اور فرمایا :يَا إِبْرَاهِيمُ أَعْرِضْ عَنْ هَذَا إِنَّهُ قَدْ جَاءَ أَمْرُ رَبِّكَ وَإِنَّهُمْ آتِيهِمْ عَذَابٌ غَيْرُ مَرْدُودٍ

’(فرشتوں نے کہا) اے ابراھیم! اس بات سے درگزر کیجیے، بےشک اب تو آپ کے رب کا حکم (عذاب) آ چکا ہے اور انہیں عذاب پہنچنے ہی والا ہے جو پلٹایا نہیں جا سکتا۔‘‘چونکہ یہ عذاب قضائے مبرم حقیقی تھا اس لیے نہ ٹل سکا۔

دوسری قسم تقدیر مبرم غیر حقیقی ہے جس تک بہت ہی نیک لوگوں کی رسائی ہو سکتی ہے۔

2-اسی کی نسبت احادیث میں ارشاد ہوتا ہے :

1. لَا يُرَدُّ الْقَضَاءِ إِلاَّ الدُّعَاءَ.(ترمذي)’’صرف دعا ہی قضا کو ٹالتی ہے۔‘‘

2. اِنَّ الدُّعَا يَرُدُّ الْقَضَآءَ الْمُبْرَمَ(ديلمي)’بے شک دعا قضائے مبرم کو ٹال دیتی ہے۔‘‘

تیسری قسم قضائے معلق ہے جس تک بندوں کی رسائی ہو سکتی ہے، خواہ وہ اللہ تعالیٰ کی عطا سے ہو یا دعاؤں سے، والدین کی خدمت سے یا صدقہ و خیرات سے ہو۔ اﷲتعالیٰ کی طرف سے بھی یہ وعدہ ہے کہ اگر کوئی بندہ چاہے تو ہم اس کے بدلنے والے ارادے، نیت اور دعا کے ساتھ ہی اس کی تقدیر بھی بدل دیں گے۔ سورۃ الرعد میں ارشاد فرمایا :يَمْحُو اللّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ(الرعد)’’اللہ جس (لکھے ہوئے) کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) ثبت فرما دیتا ہے اور اسی کے پاس اصل کتاب (لوح محفوظ) ہے۔‘‘

ابلیس نے حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے تعظیم کا سجدہ نہ کیا اور اس وجہ سے وہ کافر ہو گیا لیکن اس بدبخت شیطان نے اللہ سے دعا کی :قَالَ رَبِّ فَأَنظِرْنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ:(الحجر)’’اس نے کہا اے پروردگار! پس تو مجھے اس دن تک مہلت دے دے (جس دن) لوگ (دوبارہ) اٹھائے جائیں گے۔‘‘

اللہ نے اسے مہلےت دیدی ،اگر اللہ شیطان کی دعا قبول کر کے اس کی تقدیر بدل سکتا ہے تو یقیناً اپنے نیک بندوں کی دعاؤں سے ان کی تقدیر بدلے گا ۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں شام میں طاعون کی وبا پھیلی اور اس زمانے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی شام کے سفر پر تھے۔ وباء کی وجہ سے انہوں نے وہاں سے نکلنے میں جلدی کی تو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا أتَفِرُّ مِنْ قَدْرِ اﷲِ’’کیا آپ تقدیر سے بھاگتے ہیں۔‘‘حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:أفِرُّ مِنْ قَضَاء اﷲ اِلٰی قَدْرِ اﷲِ.(ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 3 : 283)’’میں اﷲ کی قضا سے اس کی قدر کی طرف بھاگتا ہوں۔‘‘

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر طاعون جیسا مرض کسی علاقے میں وبا کی صورت میں پھیل جائے اور میں کسی دوسرے علاقے میں پہنچ کر اس مرض سے بچ جاؤں تو میرا بچ جانا اللہ کی تقدیر یعنی علم میں ہوگا۔

لہٰذا آیت مبارکہ اور حدیث نبویﷺکی روشنی میں ثابت ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ جب چاہتے ہیں اپنے علم کے مطابق موقع بموقع تقدیر میں رد و بدل کرتے رہتےہیں،یہ رد و بدل قضائے معلق کی صورت میں ہوتا ہے لیکن جو اللہ کے علم میں آخری فیصلہ ہوتا ہے وہی ہو کر رہتا ہے۔یعنی اللہ تعالی کے لحاظ سے ہر تقدیر تقدیر مبرم ہے۔تقدیرمعلق انسانوں کے لحاظ سے ہے۔(تقدیر سے متعلق مکمل بحث کے لیے دیکھیے:رحمۃ اللہ الواسعۃ شرح حجۃ اللہ البالغۃ: ج۱ ص۶۶۱۔۶۸۲)

اپنا تبصرہ بھیجیں