عقیدہ تقدیر :پہلی قسط

عقیدہ تقدیر :پہلی قسط

حضرت تھانوی ؒ فرماتے ہیں :

“دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے یہ سب اللہ تعالیٰ ہونے سے پہلے جانتا ہے، اور اپنے علم کے مطابق اس کو پیدا کرتا ہے، تقدیر اسی کا نام ہے اور بری چیزوں کے پیدا کرنے میں بہت سی حکمتیں ہیں جن کو ہر ایک نہیں جانتا۔ “(تسہیل بہشتی زیور ص 39 مکتبہ الحجاز کراچی)

تقدیر کا مسئلہ آسان ہے۔ہرانسان اتنی بات سمجھ سکتا ہے کہ اللہ تعالی جب عالم الغیب ہے تو اس کا لازمی مطلب یہ بنتا ہے کہ ماضی حال مستقبل ہر زمانے کی ہر ہر بات جزئیات سمیت اس کےعلم میں ہے۔کون جنتی ہے کون جہنمی ہے؟ کون کس وقت اپنے اختیار سے کیا کام کرے گا؟ہر چیز اللہ کے علم میں ہے،بس اتناعقیدہ کافی ہےاور انسان اسی کا مکلف ہے۔

یہ مسئلہ مشکل اس وقت بنتا ہے جب ہم اس کو مکمل سمجھنے اور اس کی گہرائی میں جانے کی کوشش کرتے ہیں ،حالانکہ صفات باری تعالی اور متشابہات کی طرح مسئلہ تقدیر کی بھی ایک حد ہے جہاں آکر اسے رکنا پڑتا ہے،کیونکہ اس سے آگے انسانی عقل کام نہیں کرسکتی۔

مسئلہ ٔ تقدیر تک مکمل رسائی عقل و سمجھ کی پہنچ سے دور ہے۔کیونکہ یہ اللہ کا ایک ایسا راز ہے جو نہ تو کسی مقرب فرشتے پر ظاہر کیا گیا ہے اور نہ ہی اس کا بھید کسی پیغمبر اور رسول کو معلوم ہےتو یہ انسانی عقل میں کس طرح آسکتا ہے؟ اسی وجہ سے جب رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تقدیر کے بارے میں غوروخوض اورمباحثہ کرتے ہوئے سنا تو آپﷺنے اس امر پر انتہائی ناراضگی کا اظہار فرمایا،اسی لیے تقدیر کے بارے میں تحقیق و جستجو کو بالکل منع فرمادیا گیا ہے، چنانچہ جو علم ایسا ہو کہ عقل و فکر سے اس کی تہہ تک پہنچنا ممکن نہ ہو تو اس کو مکمل طور پر مثال سے سمجھنا بھی مشکل ہے۔

جیسے ایک بچہ جو ابھی بالکل ابتدائی سائنس پڑھتا ہو،وہ ’’ ایٹم بم‘‘کی حقیقت کو سمجھنا چاہےتو اس کو یہ تو سمجھایا جا سکتا ہے کہ یہ ایک انتہائی ہلاکت خیز بم ہے جس کی تباہ کاری بہت دور تک پھیل جاتی ہے،مگر اس کو مکمل طور پر سمجھانا کہ کس طرح ’’ عمل انشقاق‘‘( fission) ظہور پذیر ہوتا ہے اور کس طرح یورینیم -235 میں موجود نیوٹران،پلوٹونیم-239 کے نیوکلیس سے ٹکراتے ہیں،جس کے نتیجے میں توانائی کی ایک بہت بڑی مقدار خارج ہوتی ہے،یہ ممکن نہیں، بلکہ یہ تمام باریکیاں اس بچے کی عقل سے بہت دور ہیں اور کتنی بھی کوشش کر لی جائے اس کا ذہن ان باتوں کو نہیں پائے گا۔

تقدیر کا مسئلہ بھی اسی قسم کا ہے کہ اس کی حقیقت نقلی اور عقلی دونوں اعتبار سے نہایت واضح اور آسان ہے اور اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں،لیکن اس کو مکمل طور پر سمجھنا بھی ممکن نہیں۔بس آسانی کے لیے یوں سمجھ لیا جائے کہ اگر مکان بنانے کا ارادہ ہوتا ہے تو پہلے اس کا نقشہ تیار کر لیتے ہیں،تاکہ مکان کی عمارت اس نقشے کے مطابق بنائی جائے اور پھر اسی نقشے کے مطابق مکان تعمیر کر لیا جاتا ہے۔ اسی طرح حق تعالیٰ نے جب اس کارخانہ دنیا کے بنانے کا ارادہ فرمایا تو بنانے سے پہلے اپنے علم ازلی میں اس کا نقشہ بنایا اور ابتدا سے انتہا تک ہر چیز کا اندازہ لگا لیا۔اسی اندازۂ خداوندی کا نام تقدیر ہے،کہ تقدیر کے معنیٰ لغت میں ’’اندازہ‘‘کرنے کے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی میں اندازہ بنا دیا کہ فلاں وقت فلاں مکان میں فلاں شے اس طرح ہو گی اور فلاں شخص پیدا ہونے کے بعد فلاں وقت میں ایمان لائے گا وغیرہ۔پھر حق تعالیٰ کا اس کارخانہ عالم کو اپنے نقشے اور اندازے کے مطابق بنانے اور پیدا کرنے کا نام قضا ہے اور لغت میں قضا کے معنی ” پیدا کرنے‘‘کے ہیں۔

لہذا اہل سنت و جماعت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ قضا و قدر حق ہے اور کوئی ذرہ اس کی تقدیر سے باہر نہیں اور کسی کی مجال نہیں کہ اس کی قضا و قدر کو ٹال سکے۔مگر چونکہ اس کی تہہ تک پہنچنا انسانی عقل کے لیے نا ممکن تھا،اس لیے شریعت نے نہایت شفقت سے اجمالی عقیدہ رکھنے کو فرض قرار دیا اور غور و خوض سے منع فرما دیا۔

قال الملا علی القاری رحمہ اللہ: ” والقدر سر من اسرار اللہ تعالیٰ لم یطلع علیھا ملکا مقربا ولا رسولا نبیا مرسلا ولا یجوز الخوض فیہ والبحث عنہ بطریق العقل۔”(المرقاة:٢٥٧/١)

ترجمہ:تقدیر اللہ تعالیٰ کے رازوں میں سے ایک راز ہے، جس کے بارے میں نہ کوئی مقرب فرشتہ جانتا ہے ، نہ کوئی رسول اور نبی جانتا تھا، اور اس کی گہرائی میں جانا اور عقل کے ذریعے اس میں دخل اندازی کرنا(بحث کرنا) جائز نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں