عرق اور مہندی پر وضو اور غسل کا حکم

سوال:

1) اسلام وعلیکم!

میں نے ناخنوں پر عرق لگایا اور اب سوکھنےکے بعد وہ اوپر سے نکل نہیں رہا بلکہ نیل پالش کی طرح رہ گیا ہے ۔اس صورت میں وضو ہو جائےگا؟

2) دوسرا یہ پوچھنا تھا ہم جب مہندی لگاتے ہیں پھر دو چار دن بعد جب کلر اترتا ہے تو وہ اک جھلی کی طرح نکلتا ہے تو کیا اس طرح کی مہندی میں وضو اور غسل ہوجائیگا؟

الجواب باسم ملھم الصواب

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

1)عرق دو طرح کا ہوتا ہے ایک تو وہ جس کا چھلکا سوکھنے کے بعد اتر جاتا ہے اور رنگ رہ جاتا ہے۔اس پر وضو اور غسل میں کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ وہ پانی پہنچنے سے مانع نہیں۔اس قسم کے عرق کی پہچان یہ ہے کہ رنگ ناخن پر چڑھ جاتا ہے اور آہستہ آہستہ وہ رنگ ہلکا ہوتا جاتا ہے۔

جبکہ دوسرا عرق وہ ہوتا ہے جس کا چھلکا اوپر سے نہیں اتر رہا ہوتا ،اس کی تہ ناخن پر جم جاتی ہے اور جب اترتا ہے تو ایک دم سے پورا چھلکا اتر جاتا ہے۔تو اس کا حکم یہ ہے کہ اس کو اتارے بغیر وضو اور غسل صحیح نہیں ہوگا ۔ایسے عرق کے لگے ہوئے ہونے کے ساتھ جتنی نمازیں پڑھی جائیں گی ان کا اعادہ لازم ہوگا۔

2) ظاہراَ تو وہ رنگ ہی ہوتا ہے جو مہندی دھونے کے بعد ہاتھوں پر رہ جاتا ہے ۔اب کچھ دنوں بعد جو اس کی جھلی اترتی ہے تو بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ رنگ ہی ہے جو باریک جھلی کی صورت میں اتر رہا ہوتا ہے۔لہذا اس پر وضو اور غسل درست ہوگا ۔(مستفاد از:دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن،فتوی نمبر : 143909200694)

====================

‘(الدر المختار وحاشية ابن عابدين” (رد المحتار) (1/ 154)

”(ولا يمنع) الطهارة (ونيم) أي خرء ذباب وبرغوث لم يصل الماء تحته (وحناء) ولو جرمه، به يفتى۔

(قوله: به يفتى) صرح به في المنية عن الذخيرة في مسألة الحناء والطين والدرن معللاً بالضرورة. قال في شرحها: ولأن الماء ينفذه لتخلله وعدم لزوجته وصلابته، والمعتبر في جميع ذلك نفوذ الماء ووصوله إلى البدن”۔

”الفتاوى الهندية” (1/ 4)

”في فتاوى ما وراء النهر: إن بقي من موضع الوضوء قدر رأس إبرة أو لزق بأصل ظفره طين يابس أو رطب لم يجز، وإن تلطخ يده بخمير أو حناء جاز۔

وفي الجامع الصغير: سئل أبو القاسم عن وافر الظفر الذي يبقى في أظفاره الدرن أو الذي يعمل عمل الطين أو المرأة التي صبغت أصبعها بالحناء، أو الصرام، أو الصباغ؟ قال: كل ذلك سواء، يجزيهم وضوءهم ؛ إذ لا يستطاع الامتناع عنه إلا بحرج، والفتوى على الجواز من غير فصل بين المدني والقروي. كذا في الذخيرة۔ وكذا الخباز إذا كان وافر الأظفار. كذا في الزاهدي ناقلاً عن الجامع الأصغر. والخضاب إذا تجسد ويبس يمنع تمام الوضوء والغسل. كذا في السراج الوهاج ناقلاً عن الوجيز”

فقط-واللہ تعالی اعلم بالصواب

قمری تاریخ:1 رجب،1442ھ

شمسی تاریخ: 13 فروری،2021

اپنا تبصرہ بھیجیں