اشہر حج میں عمرہ کرنے سے فرضیت حج کا حکم

سوال:کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی رمضان شریف میں عمرہ کرنے کیلئے جائے اور تکمیل عمرہ کے بعد دس شوال تک مکہ مکرمہ میں قیام پذیر ہو اب وہ زاد راہ (خرچہ) اور ویزے کی مدت ختم ہونے کی وجہ سے واپس آرہا ہے اور اشہر حج کا مہینہ (شوال) بھی شروع ہوچکا ہے اب آپ حضرات سے پوچھنا یہ ہے کہ آیا اس آدمی پر صرف اشہر حج کے شروع ہونے کی وجہ سے حج واجب ہے یا نہیں جبکہ ابھی وہ مکہ مکرمہ میں موجود ہے اور زاد راہ اور مدتِ ویزا بھی ختم ہوچکے ہیں۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں مدلل جواب عنایت فرمائیں۔

فتویٰ نمبر:259

الجواب بعون الملک الوهاب حج کی فرضیت کے لئے ضروری شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آدمی زادِ راہ اور حج کے سفر پر (اور آجکل کے اعتبار سے جہاز وغیرہ کے خرچہ پر) مکمل قادر ہو ورنہ اس پر حج لازم نہیں ہوگا۔ لہٰذا صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص پر عدم استطاعت وقدرت (زاد راہ اور مدت ویزا کا ختم ہونا وغیرہ) کی وجہ سے حج واجب نہیں ہے البتہ اگر وہ گھر سے پیسہ منگوا لیتا ہے اور مدت ویزا میں باآسانی تو سیع بھی ممکن ہو تو اس پر حج لازم ہوجائے گا۔

لمافی القرآن الکریم(آل عمران:۹۷): وَلِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ۔

وفی اعلاء السنن (۸/۱۰): عن انس رضی اﷲ عنہ فی قولہ تعالیٰ (وﷲ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا) قیل یا رسول اﷲ ما السبیل قال الزاد والراحلۃ۔

وفی البدائع الصنائع (۴۴/۳): اما شرائط فرضیتہ… الذی یعم الرجال والنساء فمنھا البلوغ… وفی (صـ۴۷) ومنھا صحۃ البدن…… (صـ۵۱) ومنھا ملک الزاد والراحلۃ فی حق النائی عن مکۃ… ولنا أن رسول اﷲ ﷺ فسر الاستطاعۃ بالزاد والراحلۃ جمیعا فلا تثبت الاستطاعۃ باحدھما وبہ تبین ان القدرۃ علی المشی لا تکفی لاستطاعۃ الحج، ثم شرط الراحلۃ انما یراعی لوجوب الحج فی حق النایٔ عن مکۃ واما اھل مکۃ ومن حولھم فان الحج یجب علی القوی منھم القادر علی المشی من غیر راحلۃ، لأنہ لا حرج یلحقہ فی المشی الی الحج کما لا یلحق الحرج فی المشی الی الجمعۃ۔

وفی الفقہ الاسلامی (۲۰۷۶/۳): ومنھا ھوشرط للوجوب فقط وھو الإستطاعۃ … وفی (صـ۲۰۸۲) قال الحنفیۃ الاستطاعۃ انواع ثلاثۃ… بدنیۃ وما لیۃ وامنیۃ… واما الاستطاعۃ المالیۃ: فھی ملک الزاد والراحلۃ … زائدا عن نفقۃ عیالہ الذین تلزمہ نفقاتھم الی حین عودتہ ……… ویشترط فی القدرۃ علی الراحلۃ شروط الف:۔ ان تکون مختصۃ بہ فلا یکفی القدرۃ علی راحلۃ مشترکۃ… والقدرۃ الیوم بالاشتراک فی السیارات او البواخر او الطائرات… اھـ

وفی اللجنۃ الدائمۃ (۳۰/۱۱): اما الاستطاعۃ بالنسبۃ للحج: فأن یکون صحیح البدن، وان یملک من المواصلات ما یصل بہ الی بیت اﷲ الحرام من طائرۃ او سیارۃ او دابۃ او اجرۃ ذلک حسب حالہ، وان یملک زادا یکفیہ ذھابا وایابا۔ …وفی (صـ۳۲) من اجل عدم استطاعتہ المالیۃ فلا یلزمہ الحج۔ اھـ

وفی الھندیۃ (۲۱۷/۱): منھا القدرۃ علی الزاد والراحلۃ… وتفسر ملک الزاد والراحلۃ ان یکون لہ مال فاضل عن حاجتہ وھو ما سوی مسکنہ ولبسہ وخدمہ واثاث بیتہ قدر ما یبلغہ الی المکۃ ذاھبا وجائیا…اھـ۔

وفی الشامیۃ (۴۵۹/۲): (قولہ ذی زاد وراحلۃ) افاد انہ لا یجب الا بملک الزاد وملک أجرۃ الراحلۃ فلا یجب بالأباحۃ او العاریۃـ

وفی اللجنۃ الدائمۃ (۴۵/۱۱): الاستطاعۃ علی الحج شرط من شروط وجوبہ فان قدرت علیہ وعلی دفع القسط للمطلوب منک حین الحج لزمک ان تحج۔ اھـ

نجم الفتاوی

اپنا تبصرہ بھیجیں