اوقاتِ مکروہ میں ادائے نوافل

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

سوال: “مکروہ اوقات (فجر اور عصر کی فرض نمازوں کے بعد) میں تحیةالمسجد پڑھنا کیسا ہے؟”

وعلیکم السلام و رحمة الله و بركاته

الجواب باسم ملهم بالصواب

واضح رہے کہ فجر اور عصر کے بعد نفل نماز پڑھنے کی احادیث مبارکہ میں ممانعت آئی ہے۔ تحیةالمسجد بھی چونکہ نفل نماز ہے، اس لیے یہ بھی فجر اور عصر کے ممنوع یعنی مکروہ تحریمی ہو گی۔

————————-‐———————
حوالہ جات :
“حدیثِ مباركہ سے”

1… : لَا صَلَاةَ بَعْدَ الْفَجْرِ إِلَّا سَجْدَتَيْنِ وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ إِنَّمَا يَقُولُ لَا صَلَاةَ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ إِلَّا رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ۔
( أخرجه الترمذي:«باب ما جاء لا صلاة بعد طلوع الفجر إلا ركعتين»:1/ 542)
ترجمہ: طلوع فجر کے بعد سوائے دو رکعت (سنت فجر) کے کوئی صلاۃ نہیں ۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ طلوعِ فجر کے بعد (فرض سے پہلے) سوائے دو رکعت سنت کے اور کوئی صلاۃ نہیں۔

2…عن حفصه رضي الله تعالى عنها قالت :”كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ ، إذا طلع الفجرُ ، لا يُصلِّي إلا ركعتَينِ خفيفتَينِ”.
(صحيح مسلم:2 /723)
ترجمہ: حضرت حفصہ رضي الله تعالى عنها فرماتى ہیں کہ :”جب فجر طلوع ہوجاتی تو رسول اللہ ﷺ صرف دو ہلکی رکعتیں پڑھتے تھے۔”

3…عن أبي هريرة قال: نهى رسول الله صلى الله عليه و سلم عن صلاتين بعد الفجر حتى تطلع الشمس وبعد العصر حتى تغرب الشمس.”
(البخاري :باب لايتحرى الصلاة قبل غروب الشمس: (1/ 213)
ترجمہ: حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ” رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے دو وقت کی نمازوں سے منع فرمایا:فجر کے بعد جب تک سورج طلوع نہ ہوجائے،اور عصر کے بعد جب تک سورج غروب نہ ہو جائے”.
———————————————–
کتب فقہ سے

4…وكره نفل قصداًولو تحیةالمسجد، وكل ما كان واجباًلا لعينه بل لغيره….
….والکراھة ھنا تحریمیة أیضاً کما صرح بہ فی الحلبة، ولذا عبر فی الخانیة والخلاصة بعدم الجواز، والمراد عدم الحل لا عدم الصحة کما لا یخفی۔
(الدر المختار مع رد المحتار:2 /36)

5…وکذا الحکم من کراھة نفل وواجب لغیرہ لا فرض وواجب لعینہ بعد طلوع فجر سوی سنتہ لشغل الوقت بہ تقدیراً ۔۔۔الخ۔۔۔۔
(الدر المختار : 37/2)

6…نماز سنتِ فجر مكان میں پڑھ کر مسجد میں نماز فجر کے لیے جاتا ہے تو اس وقت نہ تحیة الوضو ہے نہ تحیةالمسجد ہے ۔۔۔۔۔
( امداد الفتاوی:1 /309 – 308)

7…تحیةالمسجد سنت ہے لیکن مسجد میں داخل ہونے کے بعد فرض یا سنت قبلیہ میں مشغول ہو گیا تو یہ نماز تحیةالمسجد کے قائم مقام ہو جائے گی۔ اگر مکروہ وقت ہو جس میں نوفل نہیں پڑھ سکتے تو ذکر و اذکار میں مشغول ہو جائے۔
( فتاوی دارالعلوم ذکریا: 391/2)

8…فجر کا وقت شروع ہو جانے کے بعد فجر کی نماز ادا کرنے سے پہلے کوئی نمازنفل نہ پڑھی جائے۔۔۔۔
( فتاوی محموديہ: 239/7)

9…حضرت حفصہ کی حدیث کا حوالہ دے کر اس سے استدلال کیا گیاکہ : اس وقت تحیةالمسجد نہ پڑھنی چاہیے،اسی حدیث کے پیش نظر فقہا نے اس موقع پر تحیةالمسجد کے لیے مستقل نماز کو مکروہ قرار دیا ہے۔۔۔
( کتاب الفتاوی: 243/1)

فقط واللہ اعلم بالصواب
22/دسمبر/2021
18/جمادي الاولى/1443ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں