عورت کو دوران آپریشن یورین بیگ پہنانے سے روزے کی فساد کا حکم

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! سوال یہ ہے کہ اگر روزے کی حالت میں کسی عورت کو یورین بیگ لگایا جائے جس میں کچھ دوائیں بھی ڈالی جائیں تاکہ انفیکشن نہ ہو تو کیا اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا؟

تنقیح:اس کی تفصیل بتائیں کیسے پہنایا جاتا ہے؟

جواب تنقیح:ایک پائپ یا ٹیوب اس کے پیشاب کی جگہ ڈالا جاتا ہے اور اس کا ایک سرا باہر ہوتا ہے،باہر والے سرے پر بیگ لگایا جاتا ہے جس میں دوائیں بھی ہوتی ہیں۔

والسلام

⏩الجواب حامداًو مصلياً⏪

احناف کی قدیم کتب میں مسئلہ اس طرح لکھا ہے کہ عورت کی شرمگاہ میں خواہ وہ پیشاب کا راستہ ہو یا حیض و نفاس کا دوائی ڈالنے یا تر آلہ یا تر انگلی داخل کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔

مگر اس مسئلے کا مدار اس طبی تحقیق پر تھا کہ عورت کی فرج اور معدے و آنتوں کے درمیان منفذ موجود ہے، لیکن اب جدید تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ عورت کی شرمگاہ سے (خواہ وہ پیشاب کا راستہ ہو یا حیض و نفاس کا)جوف تک براہ راست راستہ نہیں ہے،بلکہ جس طرح باہر سے دونوں کے راستے الگ الگ ہیں، اس طرح اندرونی ساخت بھی ایسی ہے کہ دونوں کی الگ الگ نالیاں ہیں ،حیض و نفاس کے راستے کا اختتام رحم پر ہوتا ہے جبکہ پیشاب کی نالی کا اختتام مثانے پر ہوتا ہے اور دونوں کا براہ راست ( ڈائریکٹ ) راستہ(منفذ) جوف(معدے یا انتوں) کی طرف نہیں ہے۔لہذا روزہ نہیں ٹوٹنا چاہیے ؛کیونکہ احناف نے جہاں جہاں مفسدات صوم(روزہ توڑنے والی چیزوں )کا ذکر کیا وہاں وہاں یہ شرط بھی لگا دی کہ وہ کسی قدرتی راستے سے جوف یا دماغ تک پہنچ جائے۔

لہذا اگر آج کل اکثر اطبا اس تحقیق پر متفق ہوں کہ عورت کی شرمگاہ سے ڈائریکٹ رستہ جوف تک نہیں تو اس صورت میں راجح یہ ہے کہ مذکورہ بالا صورتوں میں کسی سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔

دار العلوم کورنگی سے اس بارے میں جو فتوی جاری ہوا ہے اس میں احتیاط کا مشورہ دیا گیا ہے۔لہذا بغیر سخت مجبوری کے روزے کی حالت میں یہ کام نہ کروایا جائے۔بہر حال اگر کسی نے کروا لیا تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا، مگر احتیاطاً اس کی قضا کر لے۔

(مستفاد: از فتوی دار العلوم: فتوی نمبر٣١/١٩٧٦)

“لہذا آج کل کے اکثر اطباء اگر اس بات پر متفق ہوں کہ عورت کے فرج داخل اور معدہ یا آنتوں کے درمیان واقعۃ کوئی ایسا راستہ نہیں ہے تو اس صورت میں راجح یہ ہے کہ تر انگلی فرج میں داخل کرنے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔البتہ احتیاط کا تقاضہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ روزہ کی حالت میں سخت مجبوری کے بغیر یہ عمل[ یعنی اندرونی شرم گاہ کا چیک اپ کروانا] نہ کیا جائے۔”

========================================

” ١. ولو ادخل إصبعه فى استه والمرأة فى فرجها لا يفيد و هو المختار والا إذا كانت مباراة بالماء أو الدهن فحينئذ يفسد لوصول الماء أو الدهن.

( فتاوى هنديه:١٣١/١)

“٢ .ولو أدخلت قطنۃ ، إن غابت فسد وإن بقي طرفھا في فرجھا الخارج لا ‘‘۔

( الدر المختار:٣٦٩/٣)

“وَأَمَّا مَا وَصَلَ إلَى الْجَوْفِ أَوْ إلَى الدِّمَاغِ عَنْ غَيْرِ الْمَخَارِقِ الْأَصْلِيَّةِ بِأَنْ دَاوَى الْجَائِفَةَ، وَالْآمَةَ، فَإِنْ دَاوَاهَا بِدَوَاءٍ يَابِسٍ لَا يُفْسِدُ لِأَنَّهُ لَمْ يَصِلْ إلَى الْجَوْفِ وَلَا إلَى الدِّمَاغِ وَلَوْ عَلِمَ أَنَّهُ وَصَلَ يُفْسِدُ فِي قَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ، وَإِنْ دَاوَاهَا بِدَوَاءٍ رَطْبٍ يُفْسِدُ عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ وَعِنْدَهُمَا لَا يُفْسِدُ هُمَا اعْتَبَرَا الْمَخَارِقَ الْأَصْلِيَّةَ لِأَنَّ الْوُصُولَ إلَى الْجَوْفِ مِنْ الْمَخَارِقِ الْأَصْلِيَّةِ مُتَيَقَّنٌ بِهِ وَمِنْ غَيْرِهَا مَشْكُوكٌ فِيهِ، فَلَا نَحْكُمُ بِالْفَسَادِ مَعَ الشَّكِّ وَلِأَبِي حَنِيفَةَ إنَّ الدَّوَاءَ إذَا كَانَ رَطْبًا فَالظَّاهِرُ هُوَ الْوُصُولُ لِوُجُودِ الْمَنْفَذِ إلَى الْجَوْفِ فَيُبْنَى الْحُكْمُ عَلَى الظَّاهِرِ.”

(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع:2/93)

“وَأَمَّا الْإِقْطَارُ فِي الْإِحْلِيلِ فَلَا يُفْسِدُ فِي قَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ،”

(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع:2/93)

🔸و اللہ سبحانہ اعلم🔸

اپنا تبصرہ بھیجیں