عورتوں کی ملازمت کے شرائط اور پولیس میں بھرتی

الجواب

(1)—-خاندانی منصوبہ بندی کی دو صورتیں سامنےآتی ہیں، ایک قطع نسل یعنی بلا ضرورت شرعیہ آپریشن کر کے دائمی طور پر مرد یا عورت کو  اولاد پیدا کرنے کے لیے نا قابل بنا دینا، دوسری صورت منع حمل یعنی کوئی ایسی صورت یا دوائی استعمال کرنا جس کی بنا پر وقتی طور پر حمل قرار نہ پائے۔ پہلی صورت یعنی قطع نسل ناجائز ہے، صرف سخت مجبوری کی حالت میں جبکہ جان بچانے اور تکلیف دور کرنے کے لیے اس آپریشن کے علاوہ کوئی صورت نہ ہو تو اس کی گنجائش ہے۔ جہاں تک دوسری صورت یعنی منع حمل کا تعلق ہے تو خاص حالات میں وقتی طور پر اس کی گنجائش ہے مثلا عورت اتنی کمزور ہے کہ بار حمل کا تحمل نہ کرسکتی ہو یا اس کا حاملہ ہونا اس کے لیے  یا اس کی اولاد کے لیے مضر ہو یا وہ کسی ایسے مقام میں ہو جہاں قیام کا امکان نہیں بلکہ خطرہ لاحق ہے وغیرہ۔ لیکن اگر خاندانی منصوبہ بندی کا طریقہ اختیار کرنے کے پیچھے فقرو افلاس یا اقتصادی بد حالی کا خوف ہے یا  زنا یا دواعی زنا کو فروغ دینا مقصود ہے یا جنسی بے راہ روی کا دروازہ کھولنا مطلوب ہے جیسا کہ سوال سے معلوم ہوتا ہے یا کوئی اور غیر اسلامی نظریہ کار فرما ہے تو یہ فعل سراسر ناجائز ہے ۔( ماخذہ:التبویب :074/814)

(مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں :ضبط ولادت کی شرعی اور عقلی حیثیت از مفتی تقی عثمانی صاحب زید مجدہم)

مشکاۃ المصابیح :(2/952) (المکتب الاسلامی البیروت)

وعنہ قال:سئل رسول اللہ ﷺ عن العزل فقال :ما من کل الماء یکون الولد واذا اراد اللہ خلق شیء لم یمنعہ شیء۔(رواہ مسلم)

 مشکاۃ المصابیح :(2/951) (المکتب الاسلامی البیروت)

وعن ابی سعید الخدری قال : خرجنا مع رسول اللہ ﷺ غزوۃ بنی المصطلق فاصبنا سبیا من سبی العرب فاشتھینا النساء واشتدت علینا العزبۃ واحببنا العزل فاردنا ان نعزل : وقلنا نعزل ورسول اللہ ﷺ بین اظھرنا  قبل ان نسئلہ؟ فسئلناہ عن ذلک فقال : ما علیکم الا تفعلوا ما من نسمۃ کائنۃ الی یوم القیامۃ الا وھی کائنۃ۔

 مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المسابیح : (5/ 2091) (دار الفکر)

والحاصل ان کل انسان قدرہ اللہ ان سیوجد ولا یمنعہ العزل ۔قال النووی رحمہ اللہ َ معناہ ما علیکم ضرر فی ترک العزل ،لان کل نفس قدر اللہ خلقھا لا بد ان یخلقھا سواء عزلتم ام لا، فلا فائدۃ فی عزلکم؛ فانہ ان کان اللہ قدر خلقھا سبقکم الماء فلا ینفع حرصکم فی منع الخلق۔

شرح النووی لمسلم (10/10) (دار احیاء التراث العربی)

قولہ ﷺ:(لا علیکم الا تفعلوا ما کتب اللہ خلق نسمۃ ھی کائنۃ الی یوم القیامۃ الا ستکون ) معناہ ما علیکم ضرر فی ترک العزل لان کل نفس قدر اللہ تعالی خلقھا لا بد ان یخلقھا سواء عزلتم ام لا وما لم یقدر خلقھا لا یقع سواء عزلتم ام لا فلا فائدۃ فی عزلکم فانہ ان کان اللہ تعالی قدر خلقھا سبقکم الماء فلا ینفع حرصکم فی منع الخلق۔

(2)—مذکورہ ٹریننگ سنٹروں میں کورس کے ذریعہ چونکہ خاندانی منصوبہ بندی اور اسقاط حمل کی وہ تدابیر بتلائی جاتی ہیں جن کی فقہائے کرام نے اجازت نہیں دی (جیسا کہ سوال کے ساتھ منسلکہ تحریر سے معلوم ہو رہا ہے) نیز ان ٹریننگ سنٹروں میں مرد حضرات عورتوں کو بالمشافہہ تعلیم دیتے ہیں اس ان ٹریننگ سنٹروں میں عورتوں کو کورس کے لیے بھیجنا جائز نہیں ہے، اس لیے اجتناب کرنا لازم ہے۔

(3) —واضح رہے کہ عام حالات میں شریعت نے عورت کو گھر کی چار دیواری میں رہنے کی ترغیب دی ہے اور یہی اس کی فطرت ہے اور اسی میں اس کی عزت و آبرو ہے کہ وہ گھر میں اندر ہی کام انجام دے اور اپنے بچوں کی تربنیت کا فریضہ سر انجام دے کیونکہ وہی اپنے بچوں کی بہترین تربیت کر سکتی ہے اور انہیں تعلیم دے سکتی ہے اور بلا ضرورت گھر سے باہر نہ نکلے خصوصا ہمارے اس زمانے میں جبکہ ہر طرف فتنوں کا سیلاب ہے اور بے حیائی و بے پردگی کا دور دورہ ہے اور مردوں عورتوں کا بے محابا اختلاط عام ہے اور گھر سے باہر ملازمت کرنے کی صورت میں عورت  کا ان غیر شرعی امور سے خود کو بچانا نہایت دشوار ہے البتہ شریعت نے بعض شرئط کے ساتھ عورت کو ملازمت کی اجازت دی ہے لیکن اس کی ملازمت کرنے کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ اس کو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے واقعی ملازمت کی ضرورت ہے مثلا کوئی عورت ایسی ہے کہ اس کے اخراجات کی ذمہ داری برداشت کرنے والا کوئی نہیں ہے اور وہ اپنے نان و نفقہ کی غرض سے  گھر سے باہر نکل کر کام کاج کرتی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اسے ایسی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کہ نان و نفقہ کا انتظام ہے، اس کے باوجود باہر نکل کر ملازمت کرتی ہے۔

پہلی صورت میں تو گھر سے نکل کر ملازمت کرنا درست ہے بشرطیکہ وہ مندرجہ ذیل آداب و شرائط کی پابندی کرے:

(1) مکمل شرعی پردے کے ساتھ باہر نکلے نیز اس کی ملازمت عورتوں یا کم سن بچوں کے شعبہ میں ہو ، بالغ اجنبی مردوں کا اختلاط نہ ہو۔

(2)باہر بناؤ سنگھار نہ کرے ،خوشبو استعمال نہ کرےاور نہ ہی بجتا ہوا زیور پہنے۔

(3) راستہ میں آتے جاتے ہوئے  اور دوران ملازمت غیر محارم سے اختلاط نہ ہو۔

(4) گھر پر رہتے ہوئے کوئی ذریعہ معاش نہ ہو۔

(5)اس کی ملازمت جائز اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی حلال ہو۔

(6)اگر ولی موجود ہو تو ملازمت اس کی اجازت سے ہو اور اگر شادی شدہ  ہے تو شوہر کی اجازت سے ہو، کیونکہ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلنا جائز نہیں ۔

(7) بچوں اور متعلقین کے حقوق پامال  نہ ہوں ۔

دوسری صورت   جس میں عورت نان و نفقہ کے لیے ملازمت کی محتاج نہ ہو اس میں بھی اگرچہ مذکورہ بالا شرائط کی پابنی کے ساتھ ملازمت کی گنجائش ہے تاہم ایسی صورت میں ملازمت نہ کرنے میں احتیاط ہے۔

(التبویب 1257/21 ،1255/32)

لیکن مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر عورت کے لیے گھر سے باہر نکل کر کسی بھی شعبہ میں (بالخصوص پولیس کے شعبہ میں )ملازمت کرنے سے اجتناب کرنا لازم ہے ،وہ وجوہ حسب ذیل ہیں :

الف:  مفسرین کرام نے عورت کے گھر  سے باہر نکلنے کو ضرورت یا حاجت کے ساتھ مقید کیا ہےاور مذکورہ صورت میں ایسی ضرورت یا حاجت نہیں ہے۔

ب: آج کل مذکورہ بالا شرائط کی پابندی کرنا عادۃ مشکل ہے۔

ج:شریعت مطہرہ نے عورت کی ساخت اور فطرت کا لحاظ کرتے ہوئے اور اس کو عزت و کرامت کا مقام دینے کی غرض سے اس کا نان و نفقہ مردوں پر واجب کیا ہے اور بڑی تاکید کے ساتھ اس کی ادائیگی کا حکم دیا ہے، اب بلا ضرورت گھر سے نکلنا اور محنت و مشقت اٹھانا اللہ تعالی کی اس نعمت کی ناشکری اور اپنے مقام کی ناقدری کے سوا کچھ نہیں۔

د: بچوں کی تربیت میں عورت کو اہم کردار ادا کرنا ہوتا ہے اور ملازمت اختیار کرنے میں عموما بچوں کی تربیت میں کمی رہ جاتی ہے۔

ہ: ایسے اداروں میں  عموما مردوں سے اختلاط رہتا ہے جو کہ ناجائز ہے۔

  و : ایسے اداروں میں عورتوں کے لیے ایسا لباس پہننا ضروری ہوتا ہے  جس میں پردے کا اہتمام نہیں ہوتا۔

(ماخذہ: التبویب بتصرف: 22/793)

التفسیر المظھری: (7/338)  ( المکتبۃ الرشیدیۃ ،باکستان)

امر بالقرار فی البیوت … والتبرج من البروج بمعنی الظھور والمراد بھا اظھار الزینۃ وابراز المحاسن للرجال وقال ابن نجیح التبرج ای التکبر والاعجاب بنفسہ منہ رح التبخترقال البیضاوی فی تفسیرہ :لا تبخرتن فی مشیتکن تبرج الجاھلیۃ الاولی منصوب علی المصدریۃ ای تبرجا مثل تبرج الجاھلیۃ۔

تفسیر الالوسی : (11/187) ( دار الکتب العلمیۃ ،بیروت)

امرھن رضی اللہ تعالی عنھن بملازمۃ البیوت وھو امر مطلوب من سائر النساء۔

اخرج الترمذی والبزار عن ابن مسعود عن النبی ﷺ قال:( ان المراۃ عورۃ فاذا خرجت من بیتھا استشرفھا الشیطان واقرب ما تکون من رحمۃ ربھا وھی فی قعر بیتھا ) واخرج البزار عن انس قال جئن النساء الی رسول اللہ ﷺ فقلن :یا رسول اللہ ذھب الرجال بالفضل والجھاد فی سبیل اللہ تعالی فھل لنا عمل ندرک بہ فضل المجاھدین فی سبیل اللہ تعالی ؟ فقال ﷺ :(من قعدت منکن فی بیتھا فانھا تدرک عمل المجاھدین فی سبیل اللہ تعالی) وقد یحرم علیھن الخروج بل قد یکون کبیرۃ کخروجھن لزیارۃ القبور اذا عظمت مفسدتہ وخروجھن ولو الی المسجد وقد استعطرن وتزین اذا تحققت الفتنۃ اما اذا ظنت فھو حرام غیر کبیرۃ، وما یجوز من الخروج کالخروج للحج وزیارۃ الوالدین وعیادۃ المرضی، وتعزیۃ الاموات من الاقارب ونحو ذلک، فانما یجوز بشروط مذکورۃ فی محلھا۔

مسند احمد (13/339 )رقم 7958

ان لا یضربن بارجلھن لیصوت الخلخال وامثالہ من حلیھن، کما ھو منصوص القران۔ ان لا یتبخترن فی المشیۃ کیلا تکون سببا للفتنۃ، کما مر فی حدیث رقم 15 عن عبد اللہ عن النبیﷺ قال  المراۃ عورۃ فاذا خرجت من بیتھا استشرفھا الشیطان۔

حاشیۃ ابن عابدین : (3/532 ) (سعید)

قال فی الفتح والحاصل ان مدار حل خروجھا بسبب قیام شغل المعیشۃ فیتقدر بقدرہ فمتی انقضت حاجتھا لا یحل لھا بعد ذلک صرف الزمان خارج بیتھا۔

البحر الرائق: (4 /237) (دار احیاء التراث العربی)

(قولہ : ومعتدۃ الموت تخرج یوما وبعض اللیل) لتکتسب لاجل قیام المعیشۃ لانہ لا نفقۃ لھا حتی لو کان عندھما کفایتھا صارت کالمطلقۃ فلا یحل لھا ان تخرج لزیارۃ ولا لغیرھا لیلا ولا نھارا۔ والحاصل ان مدار الحل کون خروجھا بسبب قیام شغل المعیشۃ فیتقدر بقدرہ فمتی انقضت حاجتھا لا یحل لھا بعد ذلک صرف الزمان خارج بیتھا ۔کذا فی فتح القدیر۔

المحیط البرھانی: مسائل العدۃ: ( 5 236 ) (ادارۃ القرآن)

وعسی لا تجد من یسوی امرھا، فتحتاج الی الخروج لتسویۃ امر معیشتھا غیر ان الامر المعیشۃ عادۃ تسوی بالنھار دون اللیالی، فابیح لھا الخروج بالنھا دون اللیالی

حاشیۃ ابن عابدین: ( 3/569 )سعید)

( قولہ :واذا بلغ الذکور حد الکسب )ای قبل بلوغھم مبلغ الرجال اذ لیس لہ اجبارھم علیہ بعدہ (قولہ : بخلاف الاناث) فلیس لہ ان یؤ جرھن فی عمل، او خدمۃ تتار خانیۃ لان المستاجر یخلو بھا وذ لک سیئ فی الشرع ذخیرۃ ،ومفادہ انہ یدفعھا الی امراۃ تعلمھا حرفۃ کتطریز وخیاطۃ اذ لا محذور فیہ ،وسیاتی تمامہ فی النفقات۔

وفیہ ایضا: ( 3/569) (سعید)

واذابلغ الذکور حد الکسب یدفعھم الاب الی عمل لیکتسبوا، او یؤجرھم و ینفق علیھم من اجرتھم بخلاف الاناث۔

  • وفیہ ایضا: (3/145) (سعید)
  • (و) لھا (السفروالخروج من بیت زوجھا للحاجۃ، وفی تقریرات الرافعی تحتہ : (قولہ للحاجۃ) ولغیرھا لاتخرج ولو خالیۃ من الازدواج للامر بالقرار فی البیوت۔ واللہ تعالی اعلم 

الطاف احمد

دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی

۲۹/۷/1432 ؁

الجواب صحیح

بندہ محمد تقی عثمانی عفی عنہ

۲۔۸۔۳۶ھ

الجواب صحیح

محمد یعقوب عفااللہ عنہ

پی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنےکےلیے لنک پر کلک کریں:

https://bit.ly/3lHYBOf

اپنا تبصرہ بھیجیں