عوام و خواص کے لیے ایصال ثواب کی شرعی حیثیت

فتویٰ نمبر:875

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! 

میرا ایک سوال ہے کہ ایصال ثواب کی شرعی کیا حیثیت ہے ؟ کیا ہم اہل بیت کو ،صحابہ کرامؒ،یا کسی بزرگان دین کو ایصال ثواب کرسکتے ہیں؟

والسلام

الجواب حامداومصليا

ایصالِ ثواب کہتے ہیں کہ کسی نے کوئی نیکی کی، اس پر اسے ثواب ملا وہ آگے بھیج دے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ ثواب ملنا پہلے ضروری ہے۔ اگر کوئی ایسا عمل کیا جس پر ثواب نہیں ملا تو آگے کیا بھیجیں گے؟ معلوم ہوا ایصالِ ثواب کے لیے عمل میں اخلاص اور شریعت کے مطابق ہونا ضوری ہے،نیز عبادت پر کوئی اجرت بھی نہ لی ہو جیسا کہ دستور ہے ۔ ان شرائط کے ساتھ ؛نفلی عبادت مثلا دعا و استغفار، ذکر و تسبیح، درود شریف، تلاوت قرآن مجید، نفلی نماز و روزہ، صدقہ و خیرات، حج و قربانی وغیرہ کا ثواب دوسرے زندہ یا مردہ کو بخشا جاسکتا ہے ، اس میں شرعا کوئی رکاوٹ نہیں۔لیکن اس بات کا خیال رہے کہ ایصالِ ثواب کا کوئی خاص طریقہ شریعت میں متعین نہیں ہے ، نہ اس میں کسی دن کی قید ہے، نہ کسی خاص ذکر کی پابندی ہے اور نہ قرآنِ کریم کو ختم کرنا ضروری ہے؛ بلکہ بلا تعیین جو نفلی عبادت بدنی ومالی بسہولت ہوسکے ، اس کا ثواب میت کو پہنچایا جاسکتا ہے ۔ نیز یہ سمجھنا بھی صحیح نہیں کہ ایصال ثواب کے لیے جو چیز صدقہ و خیرات کی جائے وہ بعینہ میت کو پہنچتی ہے بلکہ ان کا ثواب میت کو ملتا ہے۔

حضور اکرم ﷺ اور آ پ کے اہل بیت سے محبت و عقیدت رکھنا ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے ان کے لیے دن اور وقت متعین کیے بغیر کچھ پڑھ کریا صدقہ ،خیرات کرکے ایصال ثواب کرنا درست ہے اسی طرح ہر وہ نیک عمل جس کو انسان اپنے لیے کرتاہے اس کا ایصال ثواب اپنے بزرگوں کو بھی بھیج سکتا ہے ۔ علاوہ کسی محبوب و معظم شخصیت سے محبت کے اظہار کےلیے ایصال ثواب کی صورت میں گویا ان کو ہدیہ پیش کیا جاتا ہے۔

◼قال اللّٰہ تعالیٰ: ربنااغفر لنا ولا خواننا الذین سبقونا بالایمان

(سورۃ الحشر رقم الآیۃ: ۱۰)

◼وقال اللّٰہ لنبیہ صلی اﷲ علیہ وسلم : وصل علیھم ان صلوٰتک سکن لھم

(سورۃ التوبۃ رقم الآیۃ: ۱۰۳)

◼عن عائشہ رضی اﷲ عنھا 

ومما يستدل به على جواز الصدقة عن الميت حديث عائشة رضي الله عنها : ” أن رجلا قال للنبي صلى الله عليه وسلم إن أمي افتلتت نفسها ، وأظنها لو تكلمت تصدقت ، فهل لها أجر إن تصدقت عنها ؟ قال : ( نَعَمْ ) ” رواه البخاري (1388) ، ومسلم (1004) .

◼عن ابن عباس رضی اﷲ عنھا ان امراۃ من جھینۃ جاءت الی النبی ﷺ فقالت إن أمی نذرت أن تحج فلم تحج حتی ما تت أفاحج عنھا؟ قال جحی عنھا۔ (بخاری ج ۱ ص ۲۵۰) 

◼وفي مشکوٰۃ عن سعد بن عبادۃؓ قال: یا رسول اللّٰہ إن أم سعد ماتت فأي الصدقۃ أفضل؟ قال: الماء فحفر بئرا۔ و قال: ھذہ لأم سعد۔ (رواہ ابوداؤد فی سننہ، کتاب الزکاۃ، باب في فضل سقی الماء، النسخۃ الہندیۃ ۱/۲۳۶، دارالسلام رقم:۱۶۸۱)

◼وفی البحر من صام اوصلی اوتصدق وجعل ثوابہ لغیرہ من الاموات والاحیاء جازویصل ثوابہا الیہم عنداہل السنۃ والجماعۃ کذافی البدائع…وانہ لافرق بین الفرض والنفل اھ وفی جامع الفتاویٰ وقیل لایجوز فی الفرائض’’ (ردالمحتار : ۶۶/۱)

◼الأصل أن کل من أتی بعبادۃ مالہ جعل ثوابہا لغیرہ ( تحتہ فی الشامیۃ) أی من الأحیاء والأموات۔ (الدر المختار مع الشامی ، کتاب الحج ، باب الحج، عن الغیر مطلب فیمن أخذ في عبادتہ شیئا من الدنیا کراچی ۲/۵۹۵، ۵۹۶، زکریا۴/۱۰، ۱۱، مطبوعہ کوئٹہ /۲۵۶) 

◼سواء کانت صلوٰۃ أو صوماً أو صدقۃً أو قراءۃ أو ذکراً أو طوافاً الخ۔ ( شامی ، کتاب الحج ، باب الحج عن الغیر، مطلب فیمن أخذ من عبادتہ شیئاً من الدنیا زکریا ۴/۱۰، کراچی ۲/۵۹۵)

🔹قال رسول اللہ علیہ وسلم: وإیاکم والمحدثات فإن کل بدعۃ ضلالۃ۔ (مسند البزار، مکتبہ العلوم والحکم بیروت ۱۰/۱۳۷، رقم : ۴۲۰۱)

🔹وقد نص الحنفیۃ علی أنہ لایجوز قراء ۃ القرآن بأجرو أنہ لایترتب علی ذلک ثواب والآخذ والمعطي آثمان۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ ۱/۲۹۱)

🔹فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال فإذا لم يكن للقارىء ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان بل جعلوا القرآن العظيم مكسبا ووسيلة إلى جمع الدنيا

( حاشية ابن عابدين 6 / 56)

🔹وَيُكْرَهُ اتِّخَاذُ الطَّعَامِ فِي الْيَوْمِ الْأَوَّلِ وَالثَّالِثِ وَبَعْدَ الْأُسْبُوعِ وَنَقْلُ الطَّعَامِ إلَى الْقَبْرِ فِي الْمَوَاسِمِ، وَاِتِّخَاذُ الدَّعْوَةِ لِقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ وَجَمْعُ الصُّلَحَاءِ وَالْقُرَّاءِ لِلْخَتْمِ أَوْ لِقِرَاءَةِ سُورَةِ الْأَنْعَامِ أَوْ الْإِخْلَاصِ. وَالْحَاصِلُ أَنَّ اتِّخَاذَ الطَّعَامِ عِنْدَ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ لِأَجْلِ الْأَكْلِ يُكْرَهُ

(حاشية ابن عابدين (رد المحتار) 2 / 240)

🔹ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : ویکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من أہل المیت ، لأنہ شرع في السرور لا في الشرور ، وہي بدعۃ مستقبحۃ ، وروی الإمام أحمد ، وابن ماجۃ بإسناد صحیح ، عن جریر بن عبد اللہ قال : ’’ کنا نعدّ الإجتماع إلی أہل البیت وصنعہم الطعام من النیاحۃ ‘‘ ۔ (۳/۱۳۹۰ ، کتاب الصلاۃ ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت ، کذا في حلبي کبیر :ص/۶۰۹ ، فصل في الجنائز ، مسائل متفرقۃ ، رد المحتار :۹/۶۶ ، کتاب الإجارۃ) (فتاوی محمودیہ :۳ /۸۸،کراچی)

❇ألا تری ان ابن عمر کان یعتمر عنہ صلی الله علیہ وسلم عمرًا بعدہ موتہ من غیر وصیة وحج ابن الموفق وھو فی طبقة الجنید عنہ سبعین حجة وختم ابن السراج عنہ صلی الله علیہ وسلم اکثر من عشرة اٰلاف ختمة وضحی عنہ مثل ذٰلک۔ اھ۔(شامی ج:۲ ص:۲۴۴، طبع مصر)

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ:12/1^1440

عیسوی تاریخ:23/8/2018

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

📩فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

📮ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک👇

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں