ایک روایت کی تحقیق اور مخلوق کے عالم الغیب ہونے کی تردید

سوال : میں نے پوچھنا تھا کہ کیا ایسی کوئی حدیث ہے۔ کہ اگر صالح مرد کی بیوی اسے کچھ کہے، مطلب لڑے تو جنت سے ایک حور جو کہ اس مرد کی بیوی ہو گی وہ اس پر لعن طعن کرے وغیرہ
ایک بریلوی نے سوال کیا ہے کہ اگر ایک حور جو نبی کی غلام کی غلام ہے اسکی اتنی رسائی ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کیوں نہیں جن کے صدقے دنیا بنی ہے؟

تنقیح : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کہاں تک رسائی کی بات کر رہے ہیں؟ ذرا عقیدہ واضح کردیں
جواب تنقیح
ان کا عقیدہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حاضر ناظر ہیں یعنی ہر وقت اللہ پاک کی طرح ہم پہ نظر رکھے ہوئے ہیں۔۔ نعوذ باللہ اور دوسرا انکے پاس غیب کا علم ہے۔
الجواب باسم ملھم الصواب
جی ہاں ! حور والی بات تو حدیث میں ملتی ہے، لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حور عالم الغیب ہے۔ بلکہ علم غیب کا مطلب یہ ہے کہ کسی واسطے کے بغیر خود مغیبات کو جان لینا،
جبکہ حور کو جو علم ہوتا ہے وہ اللہ تعالی کے بتانے سے علم ہوتا ہے اور یہ صرف حور کو نہیں بلکہ جو لوگ انتقال کر چکے ہوں جیسے انبیاء کرام علیھم السلام کو امت کے اعمال ، اور والدین کو اولاد کے اعمال کی اللہ تعالی اطلاع دیتے رہتے ہیں ، تو اس سے ان کا عالم الغیب ہونا ثابت نہیں ہوتا۔
اللہ تعالی کے لیے جس علم غیب کو ہم ثابت کرتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی بغیر کسی واسطے کے ساری چیزوں کو جانتے ہیں ، جو ہو چکی ہیں اور جو ہونے والی ہیں سب کو بغیر واسطے کے جانتے ہیں۔
لہذا ! اس طریقے سے اگر کوئی مخلوق کے بارے میں عقیدہ رکھے ،وہ شرک ہے، اور جسے اللہ تعالی کے بتانے سے علم ہوتا ہے ،اسے نا تو عالم الغیب کہیں گے نا ہی اس سے شرک لازم آئے گا۔

==============
حوالہ جات:
1 ۔ حور والی حدیث مبارک
”لا تؤذي امرأةٌ زوجَها في الدنيا إلا قالت زوجته من الحُورِ العِينِ لا تُؤْذِيهِ قاتلك الله! فإنما هو عندك دَخِيلٌ يُوشِكُ أن يفارقَكِ “۔
(سنن الترمذی: 1174، دار الكتب العلمیہ، بیروت )
ترجمہ: ”رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب کوئی عورت اپنے خاوند کو تکلیف پہنچاتی ہے تو (جنت کی) حوروں میں سے اس مرد کی بیوی (حور) کہتی ہے: اللہ تجھے تباہ کرے! اس شخص کو تکلیف نہ دے، یہ تو تیرے پاس مہمان ہے جو عنقریب تجھے چھوڑ کر ہمارے پاس آنے والا عنقریب تجھے چھوڑ کر آنے والا ہے“۔

مخلوق کے حاضر ناظر ہونے یا عالم الغیب ہونے کی تردید

قران کریم سے
2 ۔ ”قُلْ لَا اَمْلِکُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَلَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰہُ وَلَوْ کُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَمَا مَسَّنِیَ السُّوْءُ“ ۔
(الأعراف: 188)۔
ترجمہ
“آپ کہیے کہ میں اپنے نفس کے لیے کسی نفع اور ضرر کا مالک نہیں ہوں مگر جو اللہ چاہے، اور اگر میں (از خود) غیب کو جانتا تو میں (ازخود) خیر کثیر جمع کرلیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی“۔

2 ۔ ”قُلْ مَا كُنتُ بِدْعًا مِّنْ الرُّسُلِ وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلا بِكُمْ إِنْ أَتَّبِعُ إِلاَّ مَا يُوحَى إِلَيَّ وَمَا أَنَا إِلاَّ نَذِيرٌ مُّبِينٌ” ۔(الأحقاف : 9)۔
ترجمہ:
“کہو کہ : ’’ میں پیغمبروں میں کوئی انوکھا پیغمبر نہیں ہوں ۔ مجھے معلوم نہیں ہے کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا، اور نہ یہ معلوم ہے کہ تمہارے ساتھ کیا ہوگا؟ میں کسی اور چیز کی نہیں ، صرف اُس وحی کی پیروی کر تا ہوں جو مجھے بھیجی جاتی ہے۔ اور میں تو صرف ایک واضح انداز سے خبر دار کرنے والا ہوں ‘‘ ۔

3 ۔ ” وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثاً فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِ وَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَنْ بَعْضٍ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِ قَالَتْ مَنْ أَنْبَأَكَ هَذَا قَالَ نَبَّأَنِي الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ (سورۃ التحریم:3)
ترجمہ
“رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ کو ایک راز بتایا ، انہوں نے چھپ کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتا دیا جب وحی کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے پوچھا کہ یہ کیا آپ نے کیا تو وہ کہنے لگیں آپ کو کس نے بتایا کہ میں نے راز فاش کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے خدا تعالیٰ نے بتایا ہے۔

4 ۔ ”قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ ۚ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ“۔
(الانعام : 50)۔
ترجمہ :(اے رسول) آپ فرمادیں :میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں خود غیب جان لیتا ہوں اور نہ تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں ۔ میں تو صرف اس وحی کا پیروکار ہوں جو میری طرف آتی ہے۔ تم فر ماؤ ،کیا اندھا اور دیکھنے والا برابر ہوسکتے ہیں ؟ تو کیا تم غور نہیں کرتے؟

5 ۔” وَإِمَّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
(سورۃ الانعام:68)۔
ترجمہ : اور اگر آپ کو شیطان بھلاد ے تو آپ یاد آنے کے بعد ظالمین کے پاس مت بیٹھیں۔

————
احادیث مبارکہ سے

1 ۔ ”وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ فَقَدْ كَذَبَ
(صحیح البخاری: 4855)۔
ترجمہ: ”جو آپ کو یہ بتائے کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کل ہونے والے واقعات کو جانتے تھے، اس نے جھوٹ بولا: ہے۔“۔

2 ۔” وعن عائشة رضی اللہ عنہا قالت من زعم أنہ یخبر بما یکون في غدٍ فقد أعظم علی اللہ الفریة واللہ تعالیٰ یقول: قُلْ لَا یَعْلَمُ مَنْ فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہُ (مسلم شریف: 159 /1) ۔
ترجمہ: ”جس کا یہ دعویٰ ہو کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آئندہ ہونے والی باتوں کی خبر دیتے تھے، اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللهُ (النمل : 65) ( اے نبی ! آپ کہہ دیجئے کہ آسمانوں اور زمین میں کوئی ہستی، سوائے اللہ تعالیٰ کے، غیب نہیں جانتی)۔

3 ۔ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْب ۔۔۔۔ قَالَ سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ يُحَدِّثُ حِينَ تَخَلَّفَ عَنْ قِصَّةِ تَبُوكَ••• فَمَا رَجُلٌ يُرِيدُ أَنْ يَتَغَيَّبَ إِلَّا ظَنَّ أَنْ سَيَخْفَى لَهُ مَا لَمْ يَنْزِلْ فِيهِ وَحْيُ اللَّهِ•
(صحیح البخاری ج2ص634)
ترجمہ : ”صحابی فرماتے ہیں کہ :(غزوہ تبوک میں اتنا رش تھا لوگوں کا )مگر کوئی آدمی اس گمان سے چھپنا چاہتا کہ جب تک وحی نہ آئے گی میری عدم موجودگی کا پتہ آپ علیہ السلام کو نہ چلے گا تو چھپ سکتا تھا“۔
——————-
کتب فقہ سے
1 ۔ وقال ملا علی القاری: الحاصل أن الأنبیاء لم یعلموا المغیبات من الأشیاء إلا ما أعلمہم اللہ تعالی أحیانًا” ۔
(شرح فقہ اکبر: 158 )۔

2 ۔”غیب کی بہت سی چیزوں کا علم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے عطا فرمایاہے ، مثلا احوال قبر ، احوال حشر، جنت ودوزخ وغیرہ، لیکن ان چیزوں کے علم کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب نہیں کہا جائے گا، یہ شان صرف حق تعالی کی ہے” ۔
(فتاوی محمودیہ: مایتعلق بعلم الغیب، 471/1) ۔

واللہ اعلم بالصواب۔
9 جمادی الثانی 1444،
2 جنوری 2023۔

اپنا تبصرہ بھیجیں