طلاق رجعی دینےکےبعدایک سال بعدرجوع کرنےکاحکم

سوال: اگر کوئی ایک طلاق دے اور ایک سال گزرجائے تو کیاوہ اس کے نکاح میں ہے؟

الجواب باسم ملھم الصواب۔ 

اگر ایک طلاق رجعی دی گئی تو عدت کے اندر اندر شوہر کو رجوع کا حق ہے لیکن عدت گزرنے بعد وہ عورت اس شوہر کے نکاح سے نکل جاتی ہے۔

اب دونوں کی رضامندی کے ساتھ نئے مہر کے ساتھ نیا نکاح کیا جا سکتا ہے۔

تاہم اگر ایک طلاق بائن دی جائے تو عدت کے اندر اور باہر ہر دو صورتوں میں اگر شوہر بیوی کو رکھنا چاہے تو نئے مہر کے ساتھ نکاح جدید کرنا لازم ہوتا ہے۔

صورت مذکورہ میں جب کہ پورا سال گزر چکا ہے تو یقینا وہ عورت اس مرد کے نکاح سے نکل چکی ہے اب اگر وہ دونوں نباہ کرنا چاہیں تو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ نیا نکاح کرنا پڑے گا۔خواہ طلاق رجعی دی ہو یا طلاق بائن۔

=============

“إذا طلق الرجل امرأتہ تطلیقۃً رجعیۃً أو تطلیقتین فلہ أن یراجعہا في عدتہا رضیت بذٰلک أم لم ترض ۔ “

( الہدایۃ ، کتاب الطلاق / باب الرجعۃ ۲ ؍ ۳۹۴ دار الکتاب دیوبند ، الفتاویٰ الہندیۃ ۱ ؍ ۴۷۰ زکریا ، تبیین الحقائق ۳ ؍ ۱۴۹ زکریا ) 

“إذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض

والرجعة أن يقول: راجعتك أو راجعت امرأتي

أو يطأها أو يقبلها أو يلمسها شهوة أو ينظر إلى فرجها بشهوة

ويستحب أن يشهد على الرجعة شاهدين فإن لم يشهد صحت الرجعة”

( مختصر القدوری: 159 یونیکوڈ)

“وأَمَّا حُكْمُ الطَّلَاقِ الْبَائِنِ… فَالْحُكْمُ الْأَصْلِيُّ لِمَا دُونَ الثَّلَاثِ مِنْ الْوَاحِدَةِ الْبَائِنَةِ ، وَالثِّنْتَيْنِ الْبَائِنَتَيْنِ هُوَ نُقْصَانُ عَدَدِ الطَّلَاقِ ، وَزَوَالُ الْمِلْكِ أَيْضًا حَتَّى لَا يَحِلَّ لَهُ وَطْؤُهَا إلَّا بِنِكَاحٍ جَدِيدٍ ……..الخ”

(بدائع الصنائع فَصْلٌ في حُكْم الطَّلَاقِ الْبَائِنِ:۳۶۷/۷)

فقط-وللہ اعلم بالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں