بعث بعد الموت(موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے) کا عقیدہ:دوسری قسط

بعث بعد الموت(موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے) کا عقیدہ:دوسری قسط

بعث بعد الموت کے سائنسی پہلو

1۔انسانی جسم عام اجسام کی طرح نہیں کہ پرانا ہوگیا تو ٹوٹ گیا اور ختم ہوگیا،بلکہ انسانی جسم تو پانی کےگھاٹ کی مانند ہے، جہاں ہروقت پانی بہتا رہتا ہے،جو پانی ایک وقت کسی جگہ بہہ رہا ہوتا ہے تھوڑی دیر بعد اس کی جگہ دوسرا پانی لے لیتا ہے۔یہی مثال انسانی جسم کی ہے،انسانی جسم خلیات کاگھاٹ ہےجہاں ہر وقت خلیات کی روانی رہتی ہے،خلیات ناکارہ ہوجاتے ہیں تو خود کارسسٹم کے تحت ان کی جگہ نئے خلیات لےلیتے ہیں،کہاجاتا ہے کہ ہردس سال میں انسانی جسم مکمل طور پر تبدیل ہوچکاہوتا ہے،یعنی پچاس سال میں پانچ بار اور ستر سال میں سات بار۔عجیب بات ہے کہ یہ تبدیلی صرف جسم سے تعلق رکھتی ہے ،انسانی ذہن کا لاشعور ان تبدیلیوں کو قبول نہیں کرتاحتی کہ وہ وقت کی قید سے بھی آزاد رہتا ہے۔ انسان کے شعور اور لاشعور کی مثال برف کے تودے کی ہے جس کاصرف نواں حصہ اوپر دکھائی دیتا ہےاور بقیہ آٹھ حصے سطح سمندر کے نیچے رہتے ہیں۔انسان کو شعوری طور پر صرف دس فی صد معلومات یاد رہتی ہوں گی لیکن اس کی نوے فی صدمعلومات،حرکات وسکنات، حتی کہ اس کی نیتیں اور تاثرات، سب لاشعور میں غیرفانی حقیقت کے روپ میں محفوظ رہتی ہیں اور سینکڑوں سال تک اس طرح محفوظ رہتی ہیں جیسے ابھی کل ہی وجود میں آئی ہوں۔وقت بھی اس پر اثر انداز نہیں ہوتا۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ محیرالعقول ریکارڈآخر کس مقصد کی تکمیل کرتا ہے؟اس کا حقیقی اور درست ترین جواب عقیدہ بعث بعدالموت ہی کی صورت میں سامنے آتا ہے،قرآن کریم نے نامہ اعمال کی یہی صفت بتائی ہے کہ مالھذا الکتاب لایغادر صغیرۃ ولاکبیرۃ الااحصاھا یعنی وہ ہر چھوٹی بڑی چیز کا ریکارڈ رکھتا ہے،مذہب کہتا ہے کہ ہرانسان کے ساتھ فرشتے مقرر ہیں جو اس کی تمام حرکات وسکنات کو محفوظ کرلیتے ہیں،تحت شعور میں حرکات وسکنات کا یہ ریکارڈ درحقیقت مذہبی بیانیے کی تصدیق کرتا نظر آتا ہے۔

2۔جدید تحقیقات سے ثابت ہوا کہ انسان کی آواز فضا میں محفوظ رہتی ہے۔ہرانسان کا ہر بول فضا میں موجود ہے۔بس ایسی ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے جس سے ہرآواز کو دوسری آواز سے الگ کیا جاسکے۔تحقیقات یہ بھی ثابت کرتی ہیں کہ انسان اور ہر چیز جس حالت میں بھی ہو اس کے جسم سے خاص حرارت نکلتی ہے جس کی وجہ سے اس عمل کی وہ تصویرفضا میں محفوظ ہوجاتی ہےاور کسی بھی وقت انہیں یکجا کرکے ہرشخص کااور ہر چیزکا، کارنامہ حیات معلوم کیاجاسکتا ہے۔اگر ایسی ٹیکنالوجی دریافت ہوگئی جو اسے سامنے لاسکےتو انسانیت کو اپنے بہت سے سوالوں کے جواب مل جائیں گے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس حیرت انگیز عمل کے کیا مقاصد ہوسکتے ہیں؟کیا یہ محض ایک طبعی چیز اور اتفاقات کا شاخسانہ ہے یا اس کے پیچھے کوئی انتہائی ذہین ہستی ہے؟یقینا یہ خالق کائنات کا فعل ہے اور وہ عظیم بھید ہے جو اس نے وحی کے ذریعے انسانوں کوپہلے ہی بتادیا ہے:

یومئذتحدث اخبارھا یعنی قیامت کے دن کائنات اپنا تمام ریکارڈ پیش کردے گی۔

3۔حقیقت اس کی محتاج نہیں کہ وہ خارجی واقعات اور ہمارے مزعومات کےہی مطابق ہو ۔ہمارے پاس علم ہے ہی کیا؟سائنس تسلیم کرتی ہے کہ اس کے پاس بہت تھوڑا سا اورجزوی علم ہے! جب تھوڑا ساعلم ہے تواس کے بل پر ایسے دعوی زیب نہیں دیتےجس سے ابدی حقائق کی نفی ہوجائے!سائنس ویسے بھی مادے سے بحث کرتی ہے جبکہ عالم آخرت غیرمادی حقیقت ہے۔مادی چیزوں سے بحث کرنے والا غیرمادی چیز سے بحث کرے گا تویقینا نتیجہ غلط ہی نکالے گا۔اس لیے سائنس کو یہ حق ہی نہیں پہنچتا کہ وہ آخرت سے بحث کرے ۔ماہرِطبیعیات کاالہیات میں دخل اندازی کرنا ایسا ہے جیسے درزی کا انجینئرنگ میں رائے دینااورایک معالج کاکاشت کاری کے امور میں رائے دینا۔

4۔انسانی جسم مرجاتا ہے لیکن اس کی روح باقی رہتی ہے جب روح کو اکثریت تسلیم کرتی ہے تو اس کے نتائج کیوں تسلیم نہیں؟ یہ کیوں نہیں سوچا جاتا کہ روح آخر کہاں جاتی ہے؟روح یعنی اندر کا انسان ہی اصل انسان ہے وہ جب باقی ہے تو سمجھ لو کہ انسان باقی ہے اور وہ دوبارہ آسکتا ہے۔

5۔کائنات کو اتفاقات کا نتیجہ کہنے والےکیوں بھول جاتے ہیں کہ جب اتفاق سے انسان پہلی بار پیدا ہوسکتا ہے تو اسی اتفاق سے دوبارہ بھی پیدا ہوسکتا ہے۔پہلی بار کوئی بھی کام مشکل لگتا ہے لیکن ایک بار کرلینے کے بعد دوبارہ کرنا کوئی مشکل نہیں۔

بعث بعد الموت کے نفسیاتی پہلو:

1۔تاریخ بتاتی ہے کہ قدیم ترین زمانے سے عالمگیر پیمانے پر انسان کی نفسیات میں یہ طلب رہی ہے کہ اسے دوسری زندگی ملےاور اس کی دیرینہ خواہش یعنی دائمی حیات کی تکمیل ہو۔یہ بات بعث بعدالموت کا نفسیاتی ثبوت ہے اس لیے کہ جس طرح پیاس لگنا اس بات کی دلیل ہے کہ پانی موجود ہے اور پانی کا انسان سے خاص ربط وتعلق ہےاسی طرح بعث بعدالموت کی طلب اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کا اس کے ساتھ خاص رشتہ ہے اور وہ ایک واقعی حقیقت ہے۔

2۔یہ بات کتنی عجیب ہے کہ انسان جیسی عظیم مخلوق کا کوئی مستقبل نہ ہو۔ہرانسان بذات خود ایک عظیم شے ہے۔ہرانسان اپنی تکمیل چاہتا ہے لیکن وہ ایسا کرنہیں پاتابلکہ عین اس وقت جب وہ کچھ حاصل کرلیتا ہے جسے وہ چاہتا ہے تو اچانک موت آجاتی ہے۔بعث بعد الموت ہی اس کے مستقبل کی تکمیل کرتا ہے۔اس کے بغیر انسانی زندگی ادھوری ہی ادھوری ہے۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔)

اپنا تبصرہ بھیجیں