بعث بعد الموت(موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے) کا عقیدہ:پہلی قسط

بعث بعد الموت(موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے) کا عقیدہ:پہلی قسط

قیامت کاوقوع الگ چیز ہےاور قیامت کے بعد کی زندگی الگ چیز۔ملحدین کا دعوی ہے کہ قیامت یعنی دنیا کی تباہی تو ممکن ہے لیکن بعدالموت یعنی مرنے کے بعد دوسری زندگی کا ہوناخیالاتی باتیں ہیں،اس کی کوئی حقیقت نہیں۔

بعث بعد الموت کےقرآنی دلائل

قرآن کریم میں بعث بعدالموت کے اثبات کے بے شمار دلائل ہیں۔چند ایک دلائل ذکر کیے جارہے ہیں!

سورہ بقرہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعے میں فرمایا !

رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی (سورہ بقرہ :260) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ سے کہا کہ اے پروردگار مجھے دکھلا دیجئے کہ آپ قیامت کے دن مردوں کو کس طرح زندہ کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ چار پرندے لے لو،ان کے ٹکرے کر و اور ان ٹکڑوں کو خلط کر کے پہاڑوں پر تقسیم کر دو اور پھر ان کو بلاؤ، وہ پرندے زندہ ہو کر دوڑتے ہوئے تمہارے پاس چلے آئیں گے، اسی طرح قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بدن کے متفرق اجزاء کو جمع کرکے پہلی صورت پر اس کو زندہ کردے گا۔ اسی طرح حضرت عزیر علیہ السلام کے قصے میں فرمایا گیا کہ !

فَأَمَاتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ(بقرہ 259) حضرت حضر علیہ السلام نے جب دریافت کیا کہ اے اللہ اس بستی کو آپ دوبارہ کیسے زندہ کریں گے؟تو اللہ تعالیٰ نے ان کو سو برس تک کے لیے سلادیا، مگر ان کا جسم صحیح سالم رہا، اور خدا کی قدرت سے اس میں کوئی تغیر نہ ہوا، مگر ان کی سواری( گدھا) مرکر ریزہ ریزہ ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس گدھے کو ان کے روبرو زندہ کیا اور قیامت کے دن مخلوق کے زندہ ہونے کا نمونہ دکھلا دیا اور بتلا دیا کہ موت اور حیات ہر وقت ہماری قدرت میں ہے۔ سور ہ کہف میں ارشاد فرمایا کہ !

وَکَذَالِکَ اَعْثَرْنَا عَلَیْھِمْ لِیَعْلَمُوْا اَنَّ وَعْدَاللّٰہِ حَقٌ وَّ اَنَّ السَّاعَۃَ لَا رَیْبَ فِیْھَا۔ (سورہ کہف:21) ترجمہ:ہم نے اصحاب کہف کو تین سو سال کی نیند کے بعدبیدار کیا تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اللہ کا وعدہ حق ہے اورقیامت کے آنے میں کوئی شبہ نہیں۔

چونکہ اس زمانہ میں بعث بعد الموت کے متعلق بڑا جھگڑا تھا کوئی قائل تھا اور کوئی منکر تھا۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا کرشمہ دکھلادیا کہ جو خدا تین سو سال کی نیند کے بعد جگانے پر قادر ہے وہ صدہا سال کی موت کے بعد زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔

سورہ حج میں اللہ فرماتے ہیں ! یَآ اَیُّھَاَالنَّاسُ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَۃٍ (سورہ حج:5) ترجمہ:’اے لوگو! اگر تمہیں دوبارہ زندہ ہونے میں شک اور تردد ہے تو (اپنی پیدائش میں غور کرلو۔) تحقیق ہم نے تم کو اول مٹی سے پھر نطفہ سے پیدا کیا (اس سے تم کو خدا کی قدرت کااندازہ ہو جائے گا)۔‘‘ سورہ یس میں اللہ فرماتے ہیں !

قَالَ مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَھِیَ رَمِیمُٗ قُلْ یُحْیِیْھَا الَّذِیْ اَنْشَأَ ھَا اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّھُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیْمُٗ (سورہ یٰسٓ:78-79) ترجمہ: کافر کہتے ہیں کہ بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا۔ اے پیغمبر آپ ان سے کہہ دیجئے کہ جس ذات نے ان کو پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا وہی ان کو دوبارہ پیدا کرے گا اوروہ تو ہرچیز کوجاننے والا ہے۔ سورہ احقاف میں اللہ فرماتے ہیں!

اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلَمْ یَعْیَ بِخَلْقِھِنَّ بِقَادِرٍ عَلٰی اَنْ یُحْیِیَ الْمَوْتٰی (سورہ احقاف :33) ترجمہ: کیا نہیں دیکھتے کہ وہ اللہ جس نے آسمانوں کو اور زمین کو بنایا اور ان کے بنانے سے تھکا نہیں وہ مردوں کو زندہ کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو خدا زمین وآسمان کے پیدا کرنے سے عاجز نہ ہوا تو کیا وہ مردوں کے دوبارہ زندہ کرنے پر قادر نہ ہو گا؟

(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔)

اپنا تبصرہ بھیجیں