بابرکت عورت جس کی پہلی اولاد بیٹی ہو

فتویٰ نمبر:4057

سوال: محترم جناب مفتیان کرام!

کوئی حدیث مبارکہ ہے کہ”جس عورت کی پہلی بیٹی ہو وہ عورت بابرکت ہوتی ہے”۔

اگر ہے تو ریفرینس کے ساتھ پلیز بهیج دیجیے۔

والسلام

الجواب حامدا ومصلیا

بیٹیاں اللہ پاک کی نعمتوں میں سے ایک خوبصورت نعمت ہیں، بیٹیوں اور بہنوں کی تربیت اور پرورش کرنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فضائل بھی ذکر فرمائے ہیں:

“قاله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ عَالَ جَارِيَتَيْنِ حَتَّى تَبْلُغَا جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَنَا وَهُوَ وَضَمَّ أَصَابِعَهُ”. (رواه مسلم: 2631).

“جس نے دو لڑکیوں کی تربیت ان کی شادی تک کی تو قیامت کے دن میں اور وہ اس طرح ساتھ ہوں گے جیسے یہ دونوں انگلیاں ساتھ ہیں”۔

“وقوله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ كَانَ لَهُ ثَلَاثُ بَنَاتٍ أَوْ ثَلَاثُ أَخَوَاتٍ أَوْ ابْنَتَانِ أَوْ أُخْتَانِ فَأَحْسَنَ صُحْبَتَهُنَّ وَاتَّقَى اللَّهَ فِيهِنَّ فَلَهُ الْجَنَّةُ”.

(رواه الترمذي: 1916)

(أبو داود: 5147)

(ابن ماجه: 3669)

“جس نے تین بہنوں یا بیٹیوں کی تربیت کی یا دو بہنوں اور دو بیٹیوں کی تربیت کی تو اس کے لیے جنت ہے”۔

لیکن پہلی اولاد کے بیٹی ہونے کے بارے میں جو روایت منقول ہے وہ اس حد تک کمزور ہے کہ بعض محدثین نے اس پر موضوع یعنی من گھڑت ہونے کا حکم لگایا ہے۔

مذکورہ بالا روایت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں، لیکن مفسرین اور محدثین نے اس کو حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کا قول قرار دیا ہے۔

“وسمعت الشيخ سلمان العودة في شريط “نساء” يثبته موقوفا على واثلة رضي الله عنه.

راجع كتب التفسير في قوله تعالى: “يهب لمن يشاء إناثا”. 

اسی قول کو مفتی شفیع عثمانی رحمہ اللہ نے “معارف القرآن” میں نقل کیا ہے:

“حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جس عورت کے بطن سے پہلے لڑکی پیدا ہو وہ مبارک ہے۔(قرطبی) (معارف القرآن، شوری: 50 ) 

لہذا اس قول کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست نہیں، البتہ اس کو صحابہ کا قول کہہ کر بیان کیا جاسکتا ہے۔

وأما فضل مجيء البنت أولا ، فقد جاء فيه حديث ضعيف، بل موضوع عند بعض أهل العلم

قال الحافظ السخاوي رحمه الله في “المقاصد الحسنة” 

1/677: ” حديث ( من يمن المرأة تبكيرها بالأنثى ) : الديلمي عن واثلة بن الأسقع مرفوعا بلفظ 🙁 من بركة تبكيرها بالأنثى ألم تسمع قوله تعالى : ( يهب لمن يشاء إناثا ) فبدأ بالإناث ) ، ورواه أيضا عن عائشة مرفوعا بلفظ: ( من بركة المرأة على زوجها تيسير مهرها وأن تبكر بالإناث ) وهما ضعيفان ” انتهى .

“وقال السيوطي في فتاويه : لا يصح”.

(كشف الخفاء: 2/287.

“وقال الألباني في “السلسلة الضعيفة والموضوعة” (9/ 142) : ” ( من يمن المرأة أن يكون بكرها جارية ) : موضوع ، أخرجه ابن عدي في “الكامل” (6/ 302) من طريق شيخه محمد بن محمد بن الأشعث : حدثني موسى بن إسماعيل بن موسى بن جعفر بن محمد : حدثني أبي ، عن أبيه ، عن جده جعفر ، عن أبيه ، عن جده علي بن الحسين ، عن أبيه ، عن علي مرفوعاً .

قلت : موضوع ، المتهم به هذا الشيخ ؛ فقد ساق له ابن عدي نحو خمسة وعشرين حديثاً من أصل قرابة ألف حديث بهذا الإسناد العلوي ، وقال : “وعامتها من المناكير ، وكان متهماً” .

واللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ: 2/7/1440

عیسوی تاریخ: 11/3/2019

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں