بچہ کودینی تعلیم سےآراستہ کرناوالدین کی ذمہ داری ہے

فتویٰ نمبر:710

سوال:محترم مفتی صاحب !جامعہ معہد الخلیل الاسلامی!

جناب عالی! گزارش یہ ہے کہ آپ سے ایک مسئلہ کا حل طلب کرنا ہے کہ میری شدید خواہش ہے کہ میرا بچہ اسکول اور مدرسہ کی تعلیم ساتھ حاصل کرے ،کیونکہ یہ شاید ایمان کی کمزوری ہےکہ صرف مدرسہ میں پڑھاؤں شوہر کا رجحان بھی یہی ہے بلکہ ان کا تو کہنا یہ ہےدینی تعلیم تو انگریزی اسکولوں میں پڑھنے کے ساتھ ساتھ کسی مدرسہ میں بھی حاصل کی جاسکتی ہے لیکن اب ان کا ذہن کچھ حد تک بنا ہے کہ بچہ کو اسلامک اسکول میں داخل کرواناچاہیئے،لیکن تمام اسلامک اسکولوں کی ماہانہ فیس تو مناسب ہے لیکن داخلہ فیس ہزاروں میں ہے جو کہ میرے معاشی حالات اجازت نہیں دیتے  کیونکہ آج کل بس اللہ کا کرم ہے کہ سفیدپوشی کا بھرم قائم ہے جب کہ ہم جس علاقے ۔پی۔آئی۔بی میں رہتے ہیں وہاں صرف انگلش اسکول ہیں ان میں دین پرعمل تو درکنار بات بھی بہت کم ہے وہاں کی ماہانہ فیس اسلامی اسکولوں کے مطابق سے اور داخلہ فیس تو بالکل معاف ہے  اس لئے جب کہ ہمارے حالات کچھ اس طرح نہیں ہیں کہ ہم داخلہ فیس ہزاروں میںaffordکرسکیں اور یہ خواہش ہے کہ بچہ عصری تعلیم حاصل کرے ،تا کہ بڑے ہوکر اللہ کے دین کی سر بلندی کے لئے کام کر سکے۔

تو کیا مذکورہ صورت میں بحالت مجبوری اور خواہش کی بناء پر بچہ کو علاقہ کے ایک انگلش اسکول جو کسی حد تک مناسب ہے یعنی وہاں کی ہیڈ منسٹرصوم وصلوٰۃ کی پابند ہیں، میں بھیج سکتے ہیں؟ جب کہ گھر میں اس کو یہ تربیت دیتے رہیں کہ اسکولوں میں ہونے والے غیر اسلامی کام اللہ تعالیٰ نے منع کئے ہیں ،تو کیا ایسی صورت میں بچہ کو اسکول بھیجنا صحیح ہے یا  نہیں ؟برائے کرم اس کا جواب عنایت فرمائیں کیونکہ میرے شوہر آج کل کسی بھی علاقہ کے اسکول میں داخل کرانے کے لئےسرگرداں ہیں؟

الجواب حامدا   ومصلیا

واضح رہے کہ بچہ کو دینی تعلیم سےآراستہ کرنا ،اسے دیندارانہ ماحول اور ساتھی فراہم کرنا برے ماحول اور ساتھیوں سے دور رکھنا والدین کےفرائض میں سے ہے(۱)

والدین کا ان باتوں کی طرف بالکل ہی توجہ نہ کرنا یا اس میں غفلت اور سستی برتنا اللہ کے ہاں قابل مؤاخذہ ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

          { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا} [التحريم : 6]

            ایک ایسی جگہ بچہ  کوتعلیم دلوانا جہاں کاماحول غیراسلامی ہو،مثلاًلڑکےلڑکیاں مخلوط تعلیم حاصل کرتےہوں ،یاوہاں نامحرم مرد نوجوان لڑکیوں کویاعورتیں نوجوان لڑکوں کوتعلیم دیتی ہوں یاوہاں کی تعلیم وتربیت غیراسلامی  ہو ناپختہ ذہن بچےاس تعلیم وتربیت کی وجہ سے اسلام سےدوراورکفرکفریات سےمرعوب اورقریب ہوں ایسی تعلیم گاہوں میں بچہ کوداخل کرانااوراسےتعلیم  دلوانا ناجائزہے،بچہ  اگروہ نابالغ ہےتو اس کےوالدین گناہگارہونگے،اور اگروہ بالغ ہےتووہ بھی گناہگارہوگا۔

            نیزیہ سوچ کہ بچہ کومدرسہ کی تعلیم دلوانا،اور دنیاوی تعلیم نہ دلوانا”ایمان کی کمزوری ہے” قطعاًغلط ہے،نبی کریم ﷺ نےاپنے بہت سےجانثارصحابہ ؓ کوصرف دین اوراسلام ہی کی تعلیم کیلئے مخصوص کررکھاتھا، انکےشب وروز کامشغلہ مسجد نبوی  کےچبوترےپربیٹھ کر قرآن اوراس کےعلوم سیکھنا تھا ،وہ دنیوی تعلیم سےبہت دورتھے،لیکن اس کےباوجود ان کا ایمان بجائےکمزورہونےکےانتہائی پختہ تھا۔

            الحاصل !کسی غیراسلامی ماحول اورتعلیم وتربیت والےاسکول میں بچہ کوتعلیم دلوانا جائزنہیں  کسی  دینی مدرسہ میں تعلیم دلوانانہ صرف جائزبلکہ اس کی دینی تعلیم وتربیت  کیلئے ضروری ہے۔

دینی مدارس کےابتدائی درجات میں طالبعلم کودینی تعلیم کےساتھ ساتھ انگریزی  سائنس معاشرتی علوم  ریاضی اوردیگربہت سےعلوم بھی سکھائےجاتےہیں لہذایہ سوچ کہ  مدرسہ  کاطالبعلم دنیوی تعلیم سےبالکل  بےخبراورنرامولوی ہوتاہےصحیح نہیں۔

التخريج

(۱)تفسير المنار – (9 / 537)

وَبِمَا أَوْجَبَ اللهُ عَلَى الْوَالِدَيْنِ مِنْ حُسْنِ تَرْبِيَةِ الْأَوْلَادِ عَلَى الدِّينِ وَالْفَضَائِلِ ، وَتَجْنِيبِهِمْ أَسْبَابَ الْمَعَاصِي وَالرَّذَائِلِ ، قَالَ اللهُ تَعَالَى : يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا (66 : 6) .

الدر المختار – (4 / 78)

 وَفِي الْقُنْيَةِ: لَهُ إكْرَاهُ طِفْلِهِ عَلَى تَعَلُّمِ قُرْآنٍ وَأَدَبٍ وَعِلْمٍ لِفَرِيضَتِهِ عَلَى الْوَالِدَيْنِ،

النهر الفائق شرح كنز الدقائق – (3 / 173)

(القنية) أن له أن يكره ولده الصغير على تعلم القرآن والأدب والعلم لأن ذلك فرض على الوالدين. وفي (المجتبى الصغير) لا يمنع وجوب التعزير إلا إذا كان حقا لله تعالىن وما عن الترجماني من اعتبار البلوغ فيه أراد به ما كان حقا لله تعالى كما إذا زنا أو سرق توفيقا،

مجلة مجمع الفقه الإسلامي – (2 / 23975)

فالأبوان مسؤولان عن تربية الأولاد مسؤولية دنيوية وأخروية  والصبي أمانة عند والديه  وهذا ما نبه إليه الرسول صلى الله عليه وسلم بقوله :(كلكم راع وكلكم مسؤول عن رعيته:الإمام راع ومسؤول عن رعيته  والرجل راع في أهله ومسؤول عن رعيته والمرأة راعية في بيت زوجها ومسؤولة عن رعيتها والخادم راع في مال سيده ومسؤول عن رعيته  وكلكم راع ومسؤول عن رعيته).ويحذر النبي صلى الله عليه وسلم من انحراف المربي في تربية ولده، فيقول:(ما من مولود إلا يولد على الفطرة ، فأبواه يهودانه أو ينصرانه أو يمجسانه،كما تنتج البهيمة بهيمة جمعاء ، هل تحسون فيها من جدعاء؟).ثم يقول أبو هريرة رضي الله عنه:{ فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ }[ الروم : 30]. وأسلوب التربية في الأسرة الإسلامية يعتمد اعتمادًا أساسيًا على منهج القرآن والسنة ، وغرس محبة القرآن والنبي والدين في القلب ، والالتزام بالفضائل ، والبعد عن الرذائل.

بچہ کودینی تعلیم سےآراستہ کرناوالدین کی ذمہ داری ہے” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں