بچے کے دو نام رکھنا

سوال: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
کیا یہ بات ٹھیک ہے کہ مرکب نام نہیں رکھنا چاہیے، جیسے محمد سھل؟
الگ الگ نام رکھا جائے؟ جیسے محمد کسی بچے کا تو سھل کسی بچے کا؟
اکثر لوگ محمد نام کی برکات سمیٹنے کے لیے کسی بھی اسلامی نام کے ساتھ محمد لگاتے ہیں۔

الجواب باسم ملھم الصواب

صرف ”محمد“نام رکھنا بھی جائز ہے اور اگر محمد نام کسی اور نام کے ساتھ برکت حاصل کرنے کے لیے ملالیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
================
حوالہ جات :

”سمّوا بإسمي، ولا تكنوا بكنيتي۔“
(صحيح البخاري، كتاب البيوع، باب ما ذكر في الأسواق، ج: 3، ص: 66، ط: دار طوق النجاة)
ترجمہ: ”یعنی میرے نام پر نام رکھو، البتہ میری کنیت اختیار نہ کرو۔ “

2۔ فلا ينافي أن اسم محمد وأحمد أحب إلى الله تعالى من جميع الأسماء، فإنه لم يختر لنبيه إلا ما هو أحب إليه هذا هو الصواب ولا يجوز حمله على الإطلاق اه۔ وورد «من ولد له مولود فسماه محمدا كان هو ومولوده في الجنة» رواه ابن عساكر عن أمامة رفعه قال السيوطي: هذا أمثل حديث ورد في هذا الباب وإسناده حسن اهـ.(الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 9/598،زکریا)

3۔”وفي الفتاوى: التسمية باسم لم يذكره الله تعالى في عباده ولا ذكره رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا استعمله المسلمون تكلموا فيه، والأولى أن لايفعل، كذا في المحيط“۔(فتاوی عالمگیری 5/362 )
ترجمہ:فقہاءِ کرام فرماتے ہیں کہ بچوں کا ایسا نام رکھنا جو اللہ نے اپنے بندوں کا نہیں لیا اور نہ اس کو رسول اللہ ﷺ نے ذکر کیا اور نہ اس کو مسلمانوں نے استعمال کیا ہو یعنی مسلمانوں کا اس نام کے رکھنے کا تعارف نہ ہو تو بہتر یہ ہے کہ ایسا نام نہ رکھا جائے۔

واللہ اعلم بالصواب۔

20 ربيع الاثانى 1445
5 نومبر 2023

اپنا تبصرہ بھیجیں