بندوق کی گولی سے شکارکاحکم

  دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:160

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں

 کہ اگر کوئی شخص بندوق کی گولی سے شکار کرےاور گولی چلاتے وقت تکبیر بھی  پڑھے تو مارا ہوا شکار حلال ہے یا حرام ، گولی کوحلت صید میں تیرکا حکم حاصل ہے یانہیں؟

 مفتی ابراهیم صاحب افریقہ والوں نے اس کے جواز کا فتوی دیا ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 الجواب بعون ملہم الصواب

 گولیوں کے ذر یعہ کیے ہوئے  شکار میں شر عا کچھ  تفصیل ہے اور وہ درج ذیل ہے:

 گولی کی دو قسمیں ہیں:

(الف) گولی کی پہلی قسم: جو محدد اور نوک دار نہ ہو جیسے پستول کی گولی یا گول چھرے والا کار توس ، اس سے کئے ہوئے شکار کے بارے میں علماء کرام کا اختلاف ہے، بعض علماء کرام نے اسے حلال کہا ہے، لیکن جمہور احناف کا قول یہ ہے کہ اس سے کیا ہوا شکار حلال نہیں، لہذا جب تک شرعی طریقہ سے اس کوذبح  نہ کیا جائے اس سے اجتناب کرنا لازم ہے

(ب) گولی کی دوسری قسم: جو محدد اور نوک دار ہو جیسے کلاشنکوف ، جی تھری اور تھری ناٹ تھری وغیرہ کی گولی یانوک دار چھرے والا کارتوس اس میں چونکہ زخم کھولنے اور “خرق” یعنی چھید کر پار ہونے کی صلاحیت موجود ہے لہذا یہ بھی آلات جارحہ میں داخل ہو کر اس کا حکم تیر ہی کا حکم ہے ، اور اس سے کیا ہوا شکار بالاتفاق حلال ہے، یعنی اگر “بسم اللہ” پڑھ کر چھوڑی جائے اور شکاری کے پہنچنے سے پہلے جانور اس کے ذریعے مر جائے تو وہ حلال ہوگا ۔ کما هو حکم  السهم في عامة الكتب (تبویب: ۸۰ / ۲۰۳ ) ۔۔۔۔۔ واللہ اعلم بالصواب

احقر شاہ محمد تفضل علی

دار الافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی

 ۵ رمضان المبارک ۱۴۳۴ھ

 مطابق ۵ جولائی ۲۰۱۳ء

اپنا تبصرہ بھیجیں