بینک کے لیے سافٹ وئیر بنانے کا حکم

فتویٰ نمبر:462

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین

ایسی کمپنیوں میں جو بینک وغیر ہ کے لئے سافٹ ویر بناتی ہیں،یا وہ کمپنیاں جو ان کے لئے معاونت کا کام کرتی ہیں اور اس کے مالیاتی کاروبار سے دور رہتی ہیں،یا ان مرووجہ ما لیاتی اداروں، بنکوں اور شیئر مارکیٹ کے بروکرز (دلالوں) کمپنیوں میں مالیات سے متعلق کام کرنا یا ان اداروں میں غیر مالیاتی خدمات انجام دینا جیسے سیکوریٹی گارڈ،چپراسی وغیر ہ کاکام کرنا کیسا ہے؟

اس کے علاوہ جو لوگ ایسی پڑھائی کرتے ہیں جن کے لئے مواقع انہیں طرح کے اداروں میں مل سکتے ہیں مثلا کوئی ایم بی اے فائنانس اور بنکنگ میں کرتا ہے ،اور وہ شخص دین پر چلنے کا بھی خواہش مند ہے توان لوگوں کے لئے شرعی حل کیا ہے؟مزید برآں وہ لوگ جو بنک میں کام کرتے ہیں اور ان کے لئے متبادل بھی بہت مشکل سے ملتا ہے اور وہ شخص دین پر بھی چلنا چاہتا ہے۔ا ن لئے کیا حل ہے؟

وضاحت طلب امر یہ ہے ہمارے پاس اس طرح کے سوالات کثرت سے آتے ہیں براہ کرم ان مسائل کا حل بتاکر عند اللہ ماجور ہوں۔

جواب 

بسم الله الرحمن الرحيم

(۱) بینک کے لیے تیار کیے جانے والے سافٹ ویر میں اگر سود لکھنے کا آپشن بھی ہو تو ایسا سافٹ ویر تیار کرنا کراہت سے خالی نہ ہوگا، کیونکہ اس میں اگرچہ براہِ راست سود لکھنا نہیں ہوتا مگر لکھنے میں ایک حد تک معاونت ضرور ہوتی ہے، اور گھنٹوں کا کام منٹوں سکنڈوں میں ہوجاتا ہے، حدیث شریف میں سود لینے سود دینے کے ساتھ سود کی کتابت کو بھی باعث لعنت فرمایا گیا ہے، لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: آکل الربا وموٴکلہ وکاتبہ وشاہدیہ وقال: ہم سواء (مشکاة: ۲۴۴) لہٰذا سود کی کتابت پر تعاون بھی کراہت سے خالی نہ ہوگا، البتہ بینک کے لیے ایسا سافٹ ویر تیار کرنا جو سودی حساب وکتاب سے پاک ہو جائز ہوگا۔ 

(۲) جو کمپنیاں بینک کے لیے معاونت کا کام کرتی ہیں، اور اس کے مالیاتی کاروبار سے دور رہتی ہیں، مثلاً بینک کے لیے زمین خریدنا، عمارت تعمیر کرنا وغیرہ تو ایسا کام جائز ہے: قال في الخانیة ولو آجر نفسہ لیعمل في الکنیسة ویعمرہا لا بأس بہ لأنہ لا معصیة في عین العمل (شامي: ۹/ ۵۶۲)

(۳) دلالی: بائع اور مشتری کے درمیان ثالثی کے طور پر کام کرنے کا نام ہے، اگر دلالی جائز کام کی کی جائے تو اجرت بھی جائز ہوگی اور ناجائز کام کی دلالی جیسے حرام کاروبار میں ملوث کمپنیوں کی دلالی اسی طرح سودی بینک کی دلالی جس میں سود کا معاملہ ہو ناجائز ہوگی، اور اجرت بھی حلال نہ ہوگی بلکہ یہ خبیث طریقہ پر مال حاصل کرنا شمار ہوگا۔

(۴) حرام کاروبار میں ملوث کمپنیوں میں ایسے کام کی ملازمت جس میں حرام کام یا سود پر تعاون کرنا نہ ہو جائز ہوگی، اس لیے ایسی کمپنیوں یا بینکوں میں سیکورٹی گارڈ یا چپراسی وغیرہ کے طور پر کام کرنا جائز ہوگا۔

(۵) سود کی کتابت بہرحال ناجائز ہے اس لیے بینک میں ایسا کام کرنا جس میں سود لکھنے کے اعتبار سے تعاون ہو جائز نہ ہوگا، البتہ ایم بی اے کرنے والے حضرات سے بینک اپنے کسی غیرسودی کام (جس میں دینے، سود لینے، سود لکھنے اس پر گواہی دینے کے اعتبار سے سود پر تعاون نہ کرنا پڑتا ہو) لے تو ایسا کام کرنے کی گنجائش ہوگی۔مثلاً اگر بینک کوئی جائز تجارتی کام کرنا چاہے اور اس کے لیے ان حضرات کو اس میں بطور مشیریا نگراں کے طور پر رکھے تو بینک کے لیے اس طرح کا کام ایسے حضرات کرسکتے ہیں۔ اور اگر ایسے حضرات میں سے کوئی بینک میں ایسی ملازمت کررہا ہو جس میں سود پر تعاون ہو تو ان کو چاہیے کہ کسی اور جائز ملازمت کی تلاش میں سعی بلیغ سے کام لیں اور ملتے ہی اس ملازمت کو ترک کردیں، نیز اللہ سے توبہ واستغفار بھی کریں، البتہ جب تک ملازمت نہ ملے اس کو ترک نہ کریں اور اللہ سے جائز ملازمت ملنے کی دعائیں کرتے رہیں۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،

دارالعلوم دیوبند

اپنا تبصرہ بھیجیں