لڑکی والوں کا بارات میں آنے والے کو کھانا کھلانا لڑکی کے سسرال والوں کو جوڑا یا زیورات دینے کا حکم

سوال

۱  نکاح یعنی شام کو نکاح ہو اور رات کو رخصتی ہو تو رات کو لڑکی کے سسرال والوں کو لڑکی کے میکے والے کھانا کھلاتے ہیں تو اس کا کیا حکم ہے ؟  کیونکہ ہم نے بہت سے علماء کو دیکھا ہے کہ وہ لڑکی کے سسرال والوں کو کھانا کھلاتے ہیں تو شریعت میں اسکی کیا حیثیت ہے اور اسکا کیا حکم ہے وضاحت سے تحریر کردیجئے ۔

۲  ہمارے یہاں رواج ہے کہ شادی میں لڑکی کے سسرال والوں کو مثلاً دیور ،نندیں ساس وغیرہ کو جوڑا دیا جاتا ہے اور جو صاحب ِ حیثیت ہوتا ہےوہ سسرال والوں کو سونے کی چیزیں دیتے ہیں تو اسکا کیا فتویٰ ہے اور اس میں ہمیں کیا کرنا چاہئے تحریر کردیجئے ۔

الجواب حامداً ومصلیاً

۱ لڑکی والوں کا بارات میں آنے والے مہمانوں کو شادی کی خوشی میں کھانا کھلانا جائز ہے(۱) ۔البتہ اسے سنت یا ضروری سمجھنا یا اس بارے میں اپنے اوپر بوجھ ڈالکر اسکا اہتمام کرنا صحیح نہیں ۔

چنانچہ فتاویٰ شامی میں ہے :

رد المحتار – (2 / 240)

وَيُكْرَهُ اتِّخَاذُ الضِّيَافَةِ مِنْ الطَّعَامِ مِنْ أَهْلِ الْمَيِّتِ لِأَنَّهُ شُرِعَ فِي السُّرُورِ لَا فِي الشُّرُورِ

مزید تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو (خیرالفتاویٰ ص: ۶۰۲/۴ )

۲ یہ چیزیں سسرال والوں کو دینا شرعاًضروری نہیں  اگر کوئی صاحبِ حیثیت شخص بغیر نام و نمود بخوشی بطورِ تحفہ یہ چیزیں دیدے تو یہ جائز ہے (۲)۔

            ارشاد ِ نبوی ﷺ ہے :

مشكاة المصابيح الناشر : المكتب الإسلامي – بيروت – (2 / 165)

ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه(ص:۲۵۵)

خبردار ! کسی شخص کا مال اسکی خوشی کے بغیر حلال نہیں ۔

لیکن استطاعت نہ ہونے کے باوجود قرضہ وغیرہ لیکر اسے رسماً  پورا کرنا ، یا ریا و نمود کی خاطر یہ چیزیں دینا درست نہیں ایسی صورت میں اس سے اجتناب کیاجائے

التخريج

 (۱ ) فتح القدير للمحقق ابن الهمام الحنفي – (3 / 432)

وَيُكْرَهُ اتِّخَاذُ الضِّيَافَةِ مِنْ الطَّعَامِ مِنْ أَهْلِ الْمَيِّتِ لِأَنَّهُ شُرِعَ فِي السُّرُورِ لَا فِي الشُّرُورِ

قره عين الأخيار لتكملة رد المحتار علي الدر المختار – (7 / 246)

وَيُكْرَهُ اتِّخَاذُ الضِّيَافَةِ مِنْ الطَّعَامِ مِنْ أَهْلِ الْمَيِّتِ، لِأَنَّهُ شُرِعَ فِي السُّرُورِ لَا فِي الشُّرُورِ

(۲)الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) – (4 / 61)

لَا يَجُوزُ لِأَحَدٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ أَخْذُ مَالِ أَحَدٍ بِغَيْرِ سَبَبٍ شَرْعِيٍّ.

الفتاوى الهندية – (2 / 167)

لَا يَجُوزُ لِأَحَدٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ أَخْذُ مَالِ أَحَدٍ بِغَيْرِ سَبَبٍ شَرْعِيٍّ كَذَا فِي الْبَحْرِ الرَّائِقِ.

اپنا تبصرہ بھیجیں