برزخ کہاں ہے

سوال:برزخ کہاں ہے؟

 عالم برزخ کے متعلق جانیئے عالم برزخ حق ہے اس پر ایمان لانا فرض ہے  

مرنے کے دوباره اٹهائے جانے تک انسان ” عالم برزخ ” میں رہتا ہے 

الله تعالی نے فرمایا ہے   وَمِنْ وَّرَآئِهِمْ بَرْزَخٌ اِلى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ 

اور اسی کو عالم قبر بهی کهتے هیں اس پر ایمان لانا فرض اور لازم هے

موت کے بعد انسان عالم برزخ میں منتقل ہو جاتا ہے قبر میں مئومنوں اور کافروں سے ” منکر اور نکیر ” کا سوال حق ہے  قبر سے مراد وه گڑها مراد نہیں جس میں مرده کا جسم دفن کیا جاتا ہے بلکہ  ” عالم برزخ ” مراد ہے  جو دنیا اور آخرت کے درمیان میں ایک ” عالم ” ہے  

جو من وجه دنیا کے مشابہ  ہے  اور من وجہ  آخرت کے اس لئے کہ مرنے کے بعد اپنے ذاتی اعمال تو انسان کے منقطع ہوجاتے ہیں  مگر زندوں کی دعاوں اور صدقات اور خیرات سے اس کو نفع پهنچتا رہتا  ہے  اور پس ماندوں کی دعاوں سے اس کے گناه معاف ہوتے رہتے  ہیں تکہ  قیامت کے دن جب قبر سے اٹهے تو پاک اور پاکیزه اٹهے

 عالم برزخ  یہ اس چیز کا نام ہےجو دوچیزوں کے درمیان حائل ہو  اور شریعت میں عالم برزخ اس جهان کوکہتے ہیں  کہ  جو اس عالم دنیا اور عالم آخرت کے درمیان حائل ہو   

الله تعالی نے قیامت سے پہلے  ایک جهان بسایا هے جسے عالم برزخ کهتے ہیں  جو دنیا سے اتنا وسیع ہے  جتنی دنیا ماں کے پیٹ سے زیاده وسیع  ہے  یہاں  ( ایمان اور کفر ، طاعت اور معصیت ) کا اثر آنکهوں سے نظر آجاتا ہے .

اصل عذاب اور اصل سزا تو قیامت کے دن حساب و کتاب کے بعد ملے گی اور عالم برزخ کے سانپ اور بچهو وغیره وغیره بطور ماحضر اور بطورنمونہ کے ہیں .

عالم برزخ میں پهنچنے کے بعد جو بات سب سے پهلے پیش آتی ہے  وه منکر و نکیر کا سوال ہے یہ  اس وقت ہوتا ہے کہ جب دوست و احباب ، اقارب مرده کو قبر میںرکھ  کر واپس ہوتے ہیں اور روح انسانی جسم خاکی کی طرف لوٹائی جاتی هے یعنی روح کا بهی ایک خاص قسم کا تعلق جسم کے ساتھ  قائم ہوتا ہے  تو فرشتے منکر و نکیر بحکم خداوندی قبر میں آکر اس سے سوال کرتےہیں 

کہ  تیرا رب کون ہے ؟

اور تیرا دین کیا ہے ؟

اور اس مرد یعنی محمد رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم کے باره میں تو کیا کہتا ہے ؟

اگر مسلمان ہے  توکہتا ہے کہ  میرا رب الله ہے  اور میرا دین اسلام ہے  اوریہ شخص محمد صلی الله علیه وآله وسلم الله کے رسول برحق ہیں .

جب یہ  تمام سوالوں کا صحیح جواب دے تو پهر آسمان کی طرف سے ایک آواز دینے والا کہتا  ہے کہ  میرے بندے نے سچ کہا اس کے لئے جنت کے دروازے کهول دو پس جنت کے دروازے اس کے لئے کهل جاتے ہیں اور وہاںکی خوشبوئیں اور ٹهنڈی هوائیں آنے لگتیہیں 

اور اگر مرده کافر یا منافقہے  توکہتا ہے  ” هاه هاه لا ادری ” ہائے ہائے  مجھ کو کچھ  خبر نہیں !

تو فرشتے اس کو لوہے  کے گرزوں سے مارتے ہیں  اور جهنم کے دروازے اس کے لئے کهول دیئے جاتےہیں ۔رواہ ابوداؤد

فائده نمبر:1

قبر میں انبیاء کرام سے سوال نہیں ہوتا ہے

اور ایسے ہی شهداء اور مسلمانوں کے بچوں سے بهی سوال نہیں ہوتا  بعض احادیث میں آیا ہے کہ  جو شخص شب جمعہ یا روز جمعہ میں وفات پائے یا جو شخص ہرات کو ” سوره ملک یعنی تبارک الذی ” پڑها کرے یا استسقاء یا اسهال کی بیماری میں مرے اس سے بهی قبر میں سوال نہیں  ہوتا

فائده نمبر:2

قبر کا ثواب اور عذاب دنیا جیسی جزاء اور سزا نہیں ہے  کہ جو ان کو آنکهوں سے نظر آسکے وه دوسرا عالم ہے  جیسے نبی کریم صلی الله علیه وآله وسلم کے پاس جبرئیل امین آتے تهے نبی علیه السلام تو ان کو دیکهتے تهے اور آپ صلی الله علیه وآله وسلم کے سوا کوئی نہیں  دیکهتا تها اس لئےکہ  وه دوسرا عالم تها اسی طرح عالم برزخ دوسرا عالم ہے  اس عالم کے سانپ اور بچهو کے دیکهنے کے لئے دنیا کی آنکهیں کافی نہیں نیز دکهانا الله کے اراده و مشیت پر موقوف ہے  ہوسکتاہے  کہ  کوئی چیز سامنے ہو مگر  الله تعالی نہ دکهلانا چاہیں تو کون دیکھ سکتا ہے  ؟ بلکہ کوئی نہیں

* کتاب، عقائد الاسلام حصه اول:ص101 *

مئولف: حضرت مولانا محمد ادریس کاندهلوی نورالله مرقده

یعنی یہ  موت کے بعد ایک طرح سے انتظار کا عالم ہے یہاں کچھ  راحتیں اورکچھ  عذاب ہے  اعمال کے مطابق انسان جب مرتا ہے  تب وه اس وقت تک اس عالم برزخ میں رہتا ہے  جب تک وه دوباره اٹهایا جاتاہے.

عالم برزخ یعنی قبر کا عذاب حق ہے :

کفار و منافقین کے متعلق

سَنُعَذِّبُھُمْ مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّوْنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِيْمٍ

* سوره التوبه:101 *

ترجمه:ہم  ان کو دہری سزادیں گے پهر وه بڑے عذاب کی طرف بهیجے جائیں گے.

عذاب قیامت سے پہلے دوعذاب ہیں  ایک عذاب دنیا کا ایک عذاب قبر کا ہے:

حضرت علامه عینی رحمه الله نے ” شرح البخاری ج8۸ ص199 پر حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنه سے روایت کیا کہ ” فهذا العذاب الاول حین اخرجهم من الجسد والعذاب الثانی عذاب القبر “

ترجمه: یہ پہلا عذاب  ہے  جب کہ ان کو جسم سے نکالا جائیگا (یعنی  ان کی روح کو ) اور دوسرا عذاب عذاب قبر ہے ۔

اور حضرت علامه ابن حجر رحمه الله نے ” فتح الباری شرح البخاری ج3 ص180 ” پر اس روایت کے بعد حضرت حسن بصری رحمه الله کا قول هے:

مرتین عذاب دنیا و عذاب قبر ہے  اور چونکہ  قبر میں جسم موجود ہے اس لئے عذاب قبر جسم کو هوگا اور جسم میں روح نہ  ہو تو  عذاب ، عذاب  نہیں  رہتا جیسے انسان کے بالوں اور ناخنوں کا کاٹنا باعث تکلیف نہیں ہے۔

ایسے ہی بے حیات کی کانٹ چهانٹ بهی عذاب نہیں ہے  اس لئے عذاب قبر حق ہے ۔

اس کے متعلق حضرت علامه ابن حجر رحمه الله فرماتےہیں :

یہ  دلیل ہے  اس بات کی کہ  روح جسموں سے جداہونے  کے بعد باقی رہتی ہے  اوریہی  قول اهل سنت کا ہے ۔

* فتح الباری شرح البخاری ج3 ص180 *

اپنا تبصرہ بھیجیں