بیٹی،پوتا پوتی اور بہو کے درمیان وراثت کی تقسیم

سوال:ایک آدمی کے 2 بیٹیاں، ایک پوتا، 5 پوتیاں، ایک بہو ورثہ ہیں۔ ان کا مال کیسے تقسیم ہوگا؟
تنقیح: کیا بیوی، ماں باپ، دادا دادی، نانی اوربیٹا حیات ہیں اور اگرنہیں تو کیا مرحوم کی وفات سے پہلے یا بعد میں انتقال کیے؟
جواب تنقیح: نہیں
سب مرحوم سے پہلے وفات پاگیے تھے۔
الجواب باسم ملہم الصواب
صورتِ مسئولہ میں مرحوم نےجو ترکہ چھوڑا ہے
🔹 اس میں سے سب سے پہلے مرحوم كے كفن دفن كا متوسط خرچہ نكالا جائے، اگر كسی نے یہ خرچہ بطور احسان ادا كردیا ہے تو پھر تركے سے نكالنے كی ضرورت نہیں۔
🔹اُس كے بعد دیكھیں اگر مرحوم كے ذمے كسی كا كوئی قرض واجب الادا ہوتو اُس كو ادا كیا ۔اس کے بعد وصیت پر عمل کیا جائےگا۔
🔹میت نے اگر کوئی جائز وصیت کی ہے تو ایک تہائی(تیسرے حصے) سے اس وصیت کو پورا کیا جائے گا۔
اس کے بعد ترکہ کے 21 حصے کیے جائیں گے اور ان کی تقسیم یوں ہوگی :
↙️فی بیٹی کا حصہ *7*
↙️ پوتے کا حصہ *2*
↙️فی پوتی کا حصہ *1*
فیصد کے اعتبار سے 100 میں سے 33.33 فیصد فی بیٹی کو اور 9.5 فیصد پوتے کو اور 4.7 فیصد فی پوتی کو ملے گا ۔
——————————————–
حوالہ جات:
1.يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ.(سورۃ النساء: آیت 11)
ترجمہ: اللہ تمہاری اولاد کے حق میں تمہیں حکم دیتا ہے، ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے، پھر اگر دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو ان کے لیے دو تہائی حصہ چھوڑے گئے مال میں سے ہے، اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کے لیے آدھا ہے.
———————————————-
1.تتعلق بتركة الميت حقوق أربعة مرتبة: الأول: يبدأ بتكفينه وتجهيزه من غير تبذير ولا تقتير، ثم تقضى ديونه من جميع ما بقي من ماله، ثم تنفذ وصاياهمن ثلث ما بقي بعد الدين، ثم يقسم الباقيبين ورثته بالكتاب السنة وإجماع الأمة. فيبدأ بأصحاب الفرائض، وهم الذين لهم سهام مقدرة في كتاب الله تعالى۰(سراجي في الميراث : 8)
2.وھم: کل من لیس لہ سہم مقدر، ویاخذ ما بقی من سہام ذوی الفروض، واذا انفرد اخذ جمیع المال۔۔۔۔۔۔۔۔ اذا اجتمعت العصبات ، بعضھا عصبة بنفسھا، وبعضھا عصبة بغیرھا، وبعضھا عصبة مع غیرھا فالترجیح منھا بالقرب الی المیت لا بکونھا عصبة بنفسھا، حتی ان العصبہ مع غیرھا اذا کانت اقرب الی المیت من العصبة بنفسھا کانت العصبة مع غیرھا اولی۔(الفتاوی الھندیہ:جلد 6،صفحہ 444)
3.يبدء بتكفينه و تجهيزه بغير تبذير و لا تقتير ثم تقضى ديونه من جميع ما بقي من ماله ثم تنفذ وصاياه من الثلث ما بقي بعد الدين ثم يقسم الباقي بين الورثته” ( سراجی: صفحہ 2-3)
4.”ثم تصح الوصية لأجنبي من غير إجازة الورثة، كذا في التبيين. ولاتجوز بما زاد على الثلث إلا أن يجيزه الورثة بعد موته وهم كبار ولا معتبر بإجازتهم في حال حياته، كذا في الهداية … ولا تجوز الوصية للوارث عندنا إلا أن يجيزها الورثة.”
(الفتاوی الھندیہ:جلد 6،صفحہ 90)
5.ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف: جزء الميت ثم أصله ثم جزء أبيه ثم جزء جده (ويقدم الأقرب فالأقرب منهم) بهذا الترتيب فيقدم جزء الميت (كالابن ثم ابنه وإن سفل.
(فتاوی شامیہ: جلد 4، صفحہ 774)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واللہ خیر الوارثین
9جنوری2023
جمادی الثانی 1444

اپنا تبصرہ بھیجیں