بیٹوں کا اپنا حصہ والد کو ہبہ کرنا

سوال: ہم پانچ شادی شدہ بہنیں ہیں بھائی کوئی نہیں ہے۔ امی کے بعد والد اس گھر میں رہ رہے ہیں (وقتی طور پر میاں کے ملک سے باہر جانے کی وجہ سے ایک بہن ساتھ رہ رہی ہے)۔ تمام چیزیں وہیں کی وہیں ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ گھر جیسا والدہ کی زندگی میں چل رہا تھا ویسے ہی چلتا رہے۔ تو اس کے لیے کیا ہمیں شرعی طور پر اپنے والد کو ہر چیز کا مالک بنانا پڑے گا؟ اور اسکا طریقہ کیا ہوگا؟ (گھر کی آدھے سے زیادہ اشیاء کی مالک امی تھیں۔ کیو کہ چیزیں ان کے پیسوں سی خریدی گئیں تھیں۔ ہم نے ان تمام چیزوں کی مکمل فہرست بنا لی ہے۔ اور احتیاطا ہر چیز کے آگے اس کی آج کے حساب سے قیمت فروخت لکھ دی ہے۔
2 – ساری چیزیں تو نہیں لیکن اگر کوئی بہن کوئی خاص چیز لینا چاہے مثلا کوئی والدہ کے ان سلے کپڑے، کوئی خاص برتن تو اس کو لینے کا کیا طریقہ ہوگا؟
تنقیح : سامان والدہ کی ملکیت کیسے ہے ؟ کیا والدہ بھی کماتی تھیں؟
جواب تنقیح : نہیں ان کے ایک بھائی ان کو رقم دیا کرتے تھے۔
تنقیح : سوال صرف سامان کے تعلق سے ہے یا گھر کے بھی تعلق سے ہے ؟
جواب تنقیح : صرف سامان کے تعلق سے؛ گھر تو والد پہلے ہی پانچوں بیٹیوں کے نام کر چکے تھے ۔
الجواب باسم‌‌ ملھم الصواب
صورت مسئلہ میں اگر آپ سب بہنیں کوئی سامان نہیں لینا چاہتی سب والد کے نام کرنا چاہتی ہیں، تو آپ سب بہنیں اپنا اپنا حصہ والد کو ہبہ کر کے ان کو اس پر قبضہ بھی دیں دیں اس طرح وہ اس کے مالک ہو جائیں گے۔ دوسرا یہ کہ اگر کوئی بہن خاص کوئی چیز لینا چاہے اور اس پر سب وارثین کی رضا مندی ہو تو لینا جائز ہوگا۔
_______________________________________
حوالہ جات :
1: فَاِنۡ کُنَّ نِسَآءً فَوۡقَ اثۡنَتَیۡنِ فَلَہُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ. (سورة النساء 11)
ترجمه: پھر اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں (دو یا) دو سے زائد تو ان کے لئے اس ترکہ کا دو تہائی حصہ ہے ۔
2 :وَ لَکُمۡ نِصۡفُ مَا تَرَکَ اَزۡوَاجُکُمۡ اِنۡ لَّمۡ یَکُنۡ لَّہُنَّ وَلَدٌ ۚ فَاِنۡ کَانَ لَہُنَّ وَلَدٌ فَلَکُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِ وَصِیَّۃٍ یُّوۡصِیۡنَ بِہَاۤ اَوۡ دَیۡنٍ ؕ (سورة النساء: 12)
ترجمه :اور تمہارے لئے اس (مال) کا آدھا حصہ ہے جو تمہاری بیویاں چھوڑ جائیں بشرطیکہ ان کی کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر ان کی کوئی اولاد ہو تو تمہارے لئے ان کے ترکہ سے چوتھائی ہے (یہ بھی) اس وصیت (کے پورا کرنے) کے بعد جو انہوں نے کی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد۔
3 :عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ. (البخاري 6732)
ترجمه : نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” میراث اس کے حق داروں تک پہنچا دو اور جو کچھ باقی بچے وہ سب سے زیادہ قریبی مرد عزیز کا حصہ ہے۔“
4 : وتتم الهبة بالقبض الكامل (الدر المختار كتاب الهبة 561)
5 : قال العلامۃ الکاسانی رحمہ اللہ: وأما ما يرجع إلى الموهوب فأنواع: ومنها أن يكون محوزا فلا تجوز هبة المشاع فيما يقسم، وتجوز فيما لا يقسم ،كالعبد والحمام والدن ونحوها. (بدائع الصنائع: 6 /119)
6 : فی الھندیۃ : وتصح في محوز مفرغ عن أملاك الواهب وحقوقه ومشاع لا يقسم ولا يبقى منتفعا به بعد القسمة من جنس الانتفاع الذي كان قبل القسمة كالبيت الصغير والحمام الصغير ولا تصح في مشاع يقسم ويبقى منتفعا به قبل القسمة وبعدها، هكذا في الكافي. (الفتاوی الھندیۃ:4/376 )
7: سوال:ترکہ میں ورثا کی اجازت اور مرضی کے بغیر کیا کسی قسم کے کار خیر پر رقم خرچ کی جا سکتی ہے؟
جواب :وارثوں کی اجازت کے بغیر خرچ نہیں کر سکتے۔
سوال :کچھ رقم ورثاء کی اجازت کی بغیر مسجد میں دی گئی ہے کیا یہ رقم مسجد کے لئے جائز ہے ؟
جواب :اگر وارث اجازت دیں تو صحیح ہے ورنہ واپس کی جائے. (آپ کے مسائل اور ان کے حل: 7/503)
واللہ اعلم بالصواب
22 جنوری 2023
29 جمادی الثانی 1444

اپنا تبصرہ بھیجیں